شمالی عراق میں کردستان کی ابھرتی ہوئی ریاست کا خیر مقدم کرنے سے پہلےمیں نے یہ تسلیم کیا کہ ماضی میں اس کے آزادانہ قیام کی مخالفت کی ۔
1991 ء میں کویت جنگ ختم ہونے کے بعد اور صدام حسین کا عراق کے چھ ملین کردوں پر حملہ کرنے، میں ان کی جانب سے امریکی مداخلت کے خلاف تین دلائل پیش کیے ، عام طور پر یہ دلائل آج بھی سنائی دیتے ہیں : (1) کرد آزادی عراق کا باحثیت ریاست کے قصّے کا خاتمہ کر دئے گا۔ (2 ) یہ شام،ترکی، اور ایران میں کرد آزادی کی تحریک کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کے نتیجے میں عدم استحکام اور سرحدی تنازعات پیدا ہوں گے، اور (3) یہ غیر کردوں کے ظلم و ستم کو مدعو کرئے گا جس کی وجہ سے " لوگوں کے درمیان ایک بہت بڑا اور خون ریزی کا تبادلہ ہو گا۔"
صرف ایک صوبے کو فتح کرنے پر، نقشے میں سبز رنگ کردستان کی علاقائی حکومت کو ظاہر کر رہا ہے۔ |
تمام تینوں امکانات مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ، اور عراق کا آفت زدہ ملکی اور غیر ملکی ریکارڈ دیکھتے ہوئے ، اس بات کی توقع کی ہے کہ متحدہ عراق کے خاتمے پر ریلیف دیا جائے گا، جیسے کہ اس پر ہمسائیہ ممالک میں جشن منایا گیا۔ شام اپنے تین نسلی فرقہ وارنہ حصّوں میں تقسیم ہو چکا ہے : کرد، سنی عرب، شیعہ عرب ، جن کے بارئے میں امید کی جاتی ہے کہ وہ طویل مدت تک ایک دوسرئے کو فائدہ پہنچائیں گئے۔ کردوں کی ترکی کی طرف منتقلی بہتر طریقے سے اب – صدر طیب ایردوگان کے غیر محتاط عزائم میں رکاوٹ ڈالے گی۔ کردوں کا ایران میں روپوش ہو جانا اس روایتی – جارحانہ چھوٹی سلطنت کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ جہاں تک مجھے ڈر تھا کہ غیر کرد عراقی کردستان، سے فرار ہو جائیں گئے، جبکہ اس کے برعکس واقع ہوا: کردستان کی سلامتی، روادری، اور مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں عراق کے باقی ماندہ حصّوں سے سینکڑوں ،ہزاروں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آیا۔
میں ان غلطیوں کے لیے جواب دئے سکتا ہوں : 1991 ء میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ عراق میں خود مختار کرد حکومت اتنی ترقی کرئے گا جتنی کہ وہ کر چکی ہے۔ کردستان علاقائی حکومت ( کے- آر- جی ) ، جو کہ مندرجہ ذیل سال میں وجود میں آئی ، ( تھوڑی سی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے) اسے مشرق وسطی کا سوئزرلینڈ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مسلح، تجارتی خیالات رکھنے والے پہاڑی لوگ صرف اپنے لیے خوشحالی پیدا کریں گئے۔
1991 ء میں کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا تھا کہ کردوں کی فوج، پیشمرگا، خود کو قابل اور منظم فورس کے طور پر قائم کریں گی، کے- آر- جی ترکی میں کردوں کی طرف سے استعمال ہونے والے دہشت گردانہ طریقوں کو بدنام کرنے پر اس کی مخالفت کریں گے ؛ یہ کہ معشیت کی گرما گرمی ہو گی؛ یہ کہ کردوں کے دو بڑئے سیاسی گروپ، طالبان اور برزئنیس بقائے باہم کو سیکھیں گے؛ یہ کہ کے- آر- جی ایک ذمہ درانہ سفارت کاری میں مصروف رہیں گے ؛ یہ کہ اس کی زیر قیادت بین الاقوامی تجارتی معاہدؤں پر دستخط ہوں گے ؛ یہ کہ دس اعلی تعلیم کے ادارئے وجود میں آئیں گے؛ اور یہ کہ کرد ثقافت کو ترقی و ترویح ملے گی۔
لیکن یہ سب کیسے ہوا ۔ جیسے کہ اسلامی سکالر اوفرا بیگئیو یہ بیان کرتا ہے، کہ" خود مختار کردستان نے خود کو عراق کا سب سے زیادہ مستحکم، خوشحال، پر امن، اور جمہوری حصّہ ثابت کر دیا۔"
عراقی کردستان کا دارالحکومت، ایربائل، ترقی کی طرف گامزن ہے۔ |
کے- آر- جی کا اگلا ایجنڈا کیا ہو گا؟۔
اسلامی ریاست کو شدید دھچکا پہنچانے کے بعد ، پیشمرگا کے لیے پہلے کام یہ تھا کہ، وہ خود کو ایک مختلف کام کرنے کے قابل بنائیں، پھر سے خود کو مسلح کریں، اور عراقی مرکزی حکومت اور ترکی کے کردوں جیسے سابق مخالفین کے ساتھ اتحادانہ حکمت عملی کو اختیار کریں۔
دوسرا یہ کہ ، کے- آر- جی کی قیادت میں آزادی پر ریفرنڈم کروانے کے لیے اپنے ارادئے کی طرف توجہ دلوائی جو کہ بجاطور پر نتیجہ اخذ کرئے گا۔
تاہم ڈپلومیسی ، پیچھے ہے۔ یقینا ، عراقی مرکزی حکومت، اس ہدف کی مخالفت کرتی ہے ، جیسے کہ بڑی طاقتیں کرتیں ہیں، اس کے استحکام کے لیے اپنی عمومی احتیاط اور تشویش کی عکاسی کرتے ہیں۔ ( 1991 ء میں جارج ایچ- ڈبلیو بش کی یادگار " چکن کیوی تقریر " )
تاہم اگر، کے- آر-جی کا اعلی ترین ریکارڈ دیکھا جائے، تو بیرونی طاقتوں کو اس کے آزادنہ وجود کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ترکی میں اس کی حکومت کا حامی میڈیا پہلے سے ہی یہ کر رہا ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جوائے بیڈن نے اپنی 2006 ء کی تجاویز کی بنیاد پر یہ کہا کہ ایسے ہو سکتا ہے کہ " ہر نسلی – مذہبی گروپ جیسے کہ کرد، سنی عرب اور شیعہ عرب – کو اپنے معاملات کو چلانے کے لیے اپنے اپنے علاقے دئیے جائیں، جب کہ مرکزی حکومت کو اجازت دیتے ہوئے مشترکہ مفادات کو ان کے سپرد کو دیا جائے۔"
تیسرا: کیا ہو گا اگر عراقی کرد سرحدوں کے پار تین فورسز میں شامل ہو جائیں گے– جیسے کہ انھوں نے اس موقع پرکیا – اور تقریبا 30 ملین کی آبادی کے ساتھ ایک متحدہ کردستان کو تشکیل دیا اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ بحیرہ روم پر قبضہ کر لیں گے؟ ایک ریاست کے بغیر دنیا کا سب سے بڑا نسلی گروہ ( ایک متنازعہ دعوی: مثال کے طور پر بھارت کا کینڈیگا )، کردوں نے عالمی جنگ عظیم اول کے بعد آبادکاری کا موقع گنوا دیا کیوں کہ ان کے پاس مطلوبہ دانشواروں اور سیاستدانوں کی کمی تھی۔
کرد عوام کا ہر نقشہ دوسروں سے مختلف ہے۔ یا ان کی جغرافیائی حد کا تخمینہ پیش کرتا ہے، جس میں بحیرہ روم کی گزر گاہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ |
اب ایک کرد ریاست کا قیام یکدم ایک کافی بڑئے نئے ملک کے اضافے کے ساتھ خطے کو بہت زیادہ تبدیل کردئے گا اور جزوی طور پر اس کے چاروں پڑوسیؤں کو تقسیم کر دئے گا۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ مایوس کن عکس ہے۔ لیکن ابھی تک مشرق وسطی سکائز- پیکوٹ کے آفت زدہ معاہدئے میں جکڑا ہوا ہے جس پر 1916 ء میں خفیہ طور پر یورپی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کیے جس کو اب ایک خوشگوار شیک – اپ کی ضرورت ہے۔
اس نقطہ نظر کے مطابق کرد ریاست کا قیام ایک بہت زیادہ عدم استحکام ، خطرناک لیکن ضروری خطے کا حصہ ہے ، جس کا آغاز دسمبر 2010 ء میں ہوا۔
پھر بھی اس کے مطابق، میں اس کے چاروں مضبوط حصّوں کو پوری گرم جوشی سے خوش آمدید کہتا ہوں جو کہ جلد ہی اکھٹے مل کر ایک متحد کردستان کو تشکیل دیں گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔