کیا ہمیں ایک متحدہ اور آزاد کردستان کی امید کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے،یا یہ ایک ہولناک خیال ہے جو کہ مشرق وسطی میں مسائل کو حل کرنے کی نسبت مزید مسائل پیدا کرئے گا۔
فلپ جینکئن ،بیلور یونیورسٹی میں تاریخ کے معزز پروفیسر ،عراقی،شامی، ترکی اور ایرانیوں کی شمولیت کے ساتھ ،" فعال دہشت " کے طور پر ایک شاندار کردستان کی امید کرتے ہیں۔ میں انھیں اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حالات کےسازگار ہونے کا بھی امکان ہے۔
پروفیسر فلپ جینکئن اپنے خدشات کا اظہار ایک مضمون میں کرتے ہیں جس کا عنوان ہے "متحدہ کردستان کے خلاف کیس "، جو کہ میرئے این – آر- اوکے حالیہ مضمون " ہیلو کردستان"کے لیے براہ راست جواب کی صورت میں ہوا۔
جیسے کہ اس کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ ، جینکئن کہیں بھی آزاد کرد ممالک کو رد نہیں کرتا۔ اس کی بجائے وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک " بہترین کیس" پہلے سے ہی عراق میں حمایت کے لیے موجود ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے شامی ہم منصب سے استعفی دئے گا۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ، بلاشبہ "علاقے کے معیار کے مطابق، کرد اچھے لوگ ہیں،قریب ترین چیز یہ ہے کہ ہم مستعدی طور پر ایک مغرب نواز ریاست ہو سکتے ہیں۔"اب تک، ہم معاہدئے کی حد میں ہیں۔
ایک آزاد ریاست کے مستقبل کا پرچم؟ |
لیکن وہ بہت برئے طریقے سے متحدہ کردستان کے خلاف لائن ڈرا کرتے ہیں،" ایک پرپیش شیطانی منصوبہ " جس کی وجہ سے " قتل عام اور نسل کشی پھیل سکتی ہے" ان جگہوں پر جو اس سے پاک ہیں۔
ایران میں وہ اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ کرد کی علیحدگی ایک " خونی خانہ جنگی " پیدا کرئے گی اور " آنے والی کئی دہائیوں میں قتل عام کی واردتوں میں اضافہ ہو گا۔" ترکی میں ایک کرد علیحدگی پسند تحریک " تباہ کن ہو گی " کیونکہ یہ خطے کے ایک کامیاب معاشرئے کو مفلوج کر دئے گی" اور حتی کہ مغرب میں بھی ترک – کرد تشدد پھیل جائے گا۔ اس کے جواب میں، میں اس بات کی مخالفت کرؤں گا کہ آج ایران : اچھی آزادی کے لیے، ایک چھوٹی روایتی جارحانہ سلطنت کو تشکیل دئے رہا ہے۔ کیا اسلامی جمہوریہ ایران کی الہامی بلند خیال قیادت کو اپنے ہاتھ ایٹمی ہتھیار سے داغدار کرنے چاہیے؟، یہ نہ صرف مشرق وسطی کے لیے بلکہ مغرب کے لیے بھی خطرناک ہو گا،برقی مقناطیسی پلیس یا ای – ایم – پی کے ذریعے دھمکیاں، ایک خوفناک منظر پیش کرتیں ہیں جن کو ہر قیمت پر روکنا چاہیے۔ امریکہ کی مضبوط ترین قیادت کو براک کے ہاتھوں میں دینا "صرف ایک " اوبامہ ، کرد اس کو ایک بہت مشکل کام کے طور پر لے سکتے ہیں۔
مسلمان مشرق وسطی میں یہ عام ہےکہ کرد افواج مقابلے میں خواتین فوجیوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ |
جیسے کہ اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ، یقینا ایران ایک منی سلطنت ہے سی – آئی – ائے ورلڈ پرفیکٹ بک کے مطابق، اس کی 81 ملین افراد کو مندرجہ ذیل نسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، فارسی 6 ٪، آذری 16 ٪، کرد 10 ٪ : لور 6 ٪ ؛ بلوچ 2 ٪؛عرب،2 ٪؛ترکمن اور ترکی قبائل 2 ٪ اور دوسرئے 1 ٪۔
لسانی لحاظ سے،یہ مزید جدا جدا ہیں : فارسی 53 ٪، آذری ترکیانی اور ترک بولیاں، 18 ٪؛ کرد 10 ٪؛ گیلکی اور میزیندرانی، 7 ٪؛ لور 6 ٪؛ بلوچی ، 2 ٪؛ عربی ،2 ٪، دوسری 2 ٪۔ جیسے کہ کسی بھی سلطنت میں، ایک قومیت ( جیسے کہ فارسی) کا غلبہ ہے، جب کہ شورش زدہ اقلیتیں،خصوصی طور پر آذری پر آشتیاق علیحدگی کے لیے بے چین ہیں ۔
تمام سلطنتوں کو بالاخر ختم ہونا ہے، بعض اوقات حیرت انگیز طور پر پرامن طریقے سے – برطانوی فوج کی واپسی اور سویت اندرونی دھماکہ۔ پروفیسر جینکئن کو اس بات کا ڈر ہے کہ ایرانی سلطنت کا خاتمہ غالبا ایک قتل عام کی نسبت ایک تکلیف دہ آہ کی صورت میں ہو گا۔ بدنام سپریم لیڈر اور اس کی حمایتی کاسٹ کو ایٹمی صیلاحیت کے مقصد کو حاصل کرنے سے روکنا چاہیے، ہمیں باہر رہتے ہوئے اس مقصد کے لیے فوری طور پر اس کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے ، تو اس کی مرکزی حکومت نے بہت عرصے پہلے کرد اپنا وجود رکھتے ہیں ، کے جھوٹے افسانے کا خاتمہ کردیا تھا لیکن "پہاڑی ترکوں " نے کرد ثقافتی اظہار کی اجازت دی اور وہ خوداس وقت کردستان کے ورکرز یا پی- کے- کے کے ساتھ ایک سیاسی رہائش کے سلسلے میں مذاکرات میں مصروف تھے( جی ہاں ، بالکل یہ وہ ہی پی- کے- کے ہے جس کو 1997 ء کے بعد سے امریکہ کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔)
اسی دوران کرد کے ترکوں نے اپنی سیاسی آواز کے نتائج حاصل کر لیے اور ملک کی زندگی میں ان کے دعوی تیزی سے بڑھنے لگے۔ نسلی ترکوں سے علیحدگی کے مقاصد کے لحاظ سے کی جانے والی اپیل کے مطابق – ان کی تنومند شرح پیدائش نسلی ترکوں کی کسی بھی ایک کمزور نسل کے اوپر حاوی ہیں – اس نقطہ کے لحاظ سے وہ ایک یا دو نسلوں میں اکثریت بن سکتے ہیں۔
میں ترکی میں، سکاؤٹ لینڈ کی طرح کے ریفرنڈم کے منعقد ہونے کی پیشن گوئی کرتا ہوں جس میں وہ لوگ جو کرد اکثریت والے علاقوں میں رہتے ہیں وہ ووٹ دیں گئے کہ وہ جمہوریہ ترکی کا حصّہ رہنا چاہتے ہیں یا علیحدگی۔ بلاشبہ اس طرح کے ووٹ علیحدگی کی توثیق کریں گے۔
کرد کے علیحدہ ہو جانے کے اچھے ضمنی اثرات یہ ہو گئے کہ یہ ترکی کے ایک دغاباز آمرانہ صدر ریسیپ طیب ایرداگان کے عزائم میں رکاوٹ پیدا کرئے گا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، جب تک ترکی اپنی اس قیادت کے زیر اثر رہے گا، مشرق وسطی میں مغربی مفادات کے لیے سب سے بڑئے طویل مدت پر مشتمل خطرئے کی نمائندگی کرتا رہے گا۔ ( اس کے برعکس ایک بار بھی ملاؤں کو محفوظ طریقے سے بے نقاب کیا گیا ، تو ایران ایک بار پھر اپنی رضامندی سے اتحادی کا کردار اداء کرئے گا۔)
لہذا میں فلپ جینکئن کی باادب اختلاف رائے کا شکریہ اداء کرتا ہوں ( جو کہ آج کل بہت نایاب ہے ) اور میں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا خوف درست ہے ، یہاں تک کہ میں اسے اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہوں کہ حقیقی " فعال دہشت گردی " کا یہ جو ہنگامہ ہے وہ متحدہ کردستان کے لیے نہیں بلکہ ایک ایٹمی ایران بنانے کے لیے اور ترکی پر ایردوگان کے غلبے کے لیے ہے۔ خوش قسمتی سے مغربی ریاستیں بیک وقت ان آفات کو روک بھی سکتیں ہیں، حتی کہ وہ کرد کے "اچھے لوگوں " کی ان کی ریاست کو تشکیل دینے کے لیے ان کی مدد کر سکتیں ہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔