دہشت گردی کے زمانے میں آزاد لوگوں کے لیے ، شہری آزادیوں اور قومی سلامتی کے درمیان مناسب توازن کیا ہے؟
اس مباحثے نے ہر مغربی ملک میں ایک خودروپودئے کی حثیت اختیار کر لی ہے۔ 11ستمبر 2001 ء کے بعد سے ہونے والی یکجہتی ،جس میں ہم امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ " ہم متحد کھڑئے ہیں "، جو کہ صرف کچھ ماہ تک جاری رہی ، اس کے بعد بہت شدید تقسیم ابھر کے سامنے آئی، جیسے کہ قدامت پسندوں نے بہت باریک بینی سے اس بات کو ثابت کیا کہ وہ ان کی آزاد خیالی کی نسبت کہیں زیادہ ان کے مظالم سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ گذشتہ تین سال تک سیاسی تلخی بڑھتی رہی۔
بہت سے مثالیں اس تقسیم کی نمائندگی کرتیں ہیں۔ سب سے حالیہ، بحث قدامت پسند بش انتظامیہ اور اس کے زیادہ تر ناقدین کے درمیان احمد عمر ابو علی کے متعلق کی گئی۔
مسٹر ابو علی، 23 امریکہ میں پیدا ہوا جس کے والدین اردنی تارکین وطن تھے، اس پر گذشتہ ہفتے صدر بش کے قتل کی سازش کے لیے فرد جرم عائد کر دی گئ تھی۔ استغاثیہ اس پر زور دیتی ہے کہ وہ القاعدہ کے ساتھ رابطے میں تھا اور 2002 ء میں اس نے صدر بش کو لے کر ان کے قتل کے ارادئے کے بارئے میں ان سے تبادلہ خیال کیا، " صدر بش کے کافی قریب ہو کرانھیں سڑک پر گولی مارنے کے لیے " یا کار میں بم استعمال کر کے۔
مسٹر ابو علی کی سوانح عمری یہ بتاتی ہے کہ وہ القاعدہ کا رکن ہونے کے تحت کس طرح ختم ہو سکتا ہے۔
اس نے اسکندریہ ، امریکہ کی اسلامک سعودی اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی اور 1999 ء میں گریجویشن کی ، اکیڈمی میں بہترین کامیابی حاصل کرنے پر اس نے الوداعی تقریب میں کلاس سے خطاب کیا۔ اس نے کہا کہ یہ اکیڈمی امریکی سر زمین پر سعودی اقدار کی ایک چوکی ہے، اکیڈمی سعودی حکومت سے فنڈز حاصل کرتی ہے، یہ واشنگٹن میں سعودی سفیر کے زیر صدارت کام کرتی ہے اور س نصاب کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، جو کہ براہ راست ریاض سے منگوایا جاتا ہے۔
پس اسلامی سعودی اکیڈمی کے استاد کی کتاب اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ " عیسائیت اور یہودیت جھوٹے مذاہب ہیں "۔ جب اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس نصاب پر صلاح الفوزن نے نظر ثانی کی ہے جس نے 2003 ء میں انسٹیوٹ آف سلیوری کی منظوری دی تھی، تو یہ ایک بہت بڑئے دھچکے کے اثر کو کسی حد تک کم کر دیتا ہے۔
مسٹر ابو علی اب بھی امریکہ میں رہتے ہوئے شمالی ورجینیا کے " پینٹ بال جہادیوں " کے ساتھ اپنے روابط کو فروغ دئے رہا ہے، جن میں سے 9 اپنا وقت جیل میں گزار رہیں ہیں۔ 2000 ء میں وہ مدینہ کی اسلامک یونیورسٹی میں اسلام کے بنیادی عقائد کا مطالعہ کرنے کے لیے گیا۔ مئی 2003 ء میں ریاض میں ایک دہشت گردی کے حملے میں 30 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 9 امریکی تھے؛ اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد سعودی عریبہ نے اس جرم میں ملوث ہونے پر ابو علی کو گرفتار کر لیا، اس کی امریکہ حالیہ منتقلی تک اسے جیل میں بند رکھا گیا۔
قدامت پسند اس، رونگٹے کھڑئے کر دینے والی خبر پر فوکس کرتے ہیں کہ ایک القاعدہ ملحق فرد نے امریکہ کے صدر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ لبرل بہت مشکل سے اس پیش رفت کو نوٹ کرتے ہیں اور اس کی بجائے اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ یہ کہاں سے آیا، جب کہ مسٹر ابو علی پر سعودی حراست میں تشدد کیا گیا تھا(محکمہ انصاف کے حکام اس کو سراسر جھوٹ کہتے ہیں")۔ شمال مشرقی اخبارات کے چار اداریے اس کا نوٹس لیتے ہیں۔
- نیویارک ٹائمز:یہ کیس ایک " مظاہرئے کے بارئے میں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف وفاقی جنگ میں کیا غلط ہو گیا کسی بھی باہر کے قابل فہم متشبہ شخص کے غلط بیانات کے لیے ایک نامناسب کوشش میں، امریکی حکام نے سعودی عربیہ جیسے ممالک کے ساتھ کام کیا۔
- واشنگٹن پوسٹ : " عدالتوں کو اس بات کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی حکومت کی مدد سے یا اس کی مدد کے بغیر تشدد کے بارئے میں کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اور یہ کہ مجرم لوگوں کو امریکہ کی عدالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
- بلیٹ مور سن : یہ لکھتا ہے کہ ( ایک مذاق کی طرح اس کو برساؤ) احمد عمر ابو علی کے خلاف وفاقی فرد جرم کو کھولنے سے، امریکہ کی حکومت ایک امریکی شہری کی سعودی عریبہ میں نامعلوم قید کی بجائے ایک مبینہ دہشت گردی کی سازش کے متعلق شہہ سرخیاں حاصل کیں۔ یہ بیان کرتا ہے کہ مسٹر ابو علی ایک [بیمار] ہیں اور اس کے علاوہ تشدد کا شکار ہیں۔ حکومت یہ سوچ سکتی ہے کہ اس کے راز محفوظ ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔"
- نیوز ڈئے : کے اداریاتی اس کو یہ عنوان دیتے ہیں کہ " حقوق کی خلاف ورزی پر بش کو شرم آنی چاہیے" ۔
لبرل تجزیہ کاروں کے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھیں اس بات کی کوئی تشویش نہیں ہے کہ ایک امریکی شہری جس کی ورجینیا میں سعودی حکومت نے تربیت کی، وہ صدر کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرئے گا۔ انھوں نے اس ایک بہت بڑی خبر کے نتائج کی کھوج لگانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو ایک دہشت گردی کے خلاف مقدمے کی تفشیش کرنے پر کوئی خراج تحسین پیش نہیں کی۔ اس کی بجائے انھوں نے خصوصی طور پر شواہد پر مبنی طریقہ کار پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ صرف شہری آزادیوں کو جانتے ہیں؛ جب کہ قومی سلامتی کو رجسٹر نہیں کرتے۔ لیکن وزیراعظم بلیئر صحیح طریقے سے یہ لکھتے ہیں " کہ بہت زیادہ سول آزادی کی نسبت کوئی اور چیز موجود نہیں ہے کہ ہم دہشت گردی کے حملے سے بچ سکیں۔"
ایک مناسب توازن پیدا کرنے کے لیے مغربیوں کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ اسلام پسند خطرئے کی خرابی کی صورت میں کیا رونماء ہو گا۔ قومی سلامتی کی غلطیاں اس بات کو بڑھا رہیں ہیں کہ معصوم لوگوں کو جیل میں ان کا وقت گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ غلطیاں شہری آزادیوں کو بڑھا رہیں ہیں اور اجتماعی قتل زیادہ ہو رہے ہیں اور شائد کہ طالبان کی طرح کی ریاست کی پیداوار ہو رہی ہے ( جہاں شہری آزادیاں موجود نہیں ہیں) ۔
عزیز پڑھنے والوں ،آپ کس کی تائید کرتے ہیں، آپ کس کا انتخاب کرؤ گئے؟
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔