جنوری 1994 ء میں قیام پذیر ہونے والا،مشرق وسطی فورم اپنی بیسویں سالگرہ منانے کو ہے۔ تقریب کا افتتاح کرنے پر، ڈئنیل پائپز نے کچھ بار بار پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیا۔
سوال: بیس سالوں کے دوران مڈل ایسٹ فورم کیسے پھیلا؟
جواب: انٹرنیٹ نے ہماری زندگی بدل دی۔ ہم ایک بنڈل میں اپنی 100 ای- میلز دوسروں کو بھیجنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اب صرف اکیلی میری ویب سائٹ کے 67 ملین صفحات کو ملاحظ کیا جا چکا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب ہمیں میڈیا کے گیٹ کیپرز پر مزید منحصر ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم بذات خود بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مغرب میں اسلام کے عروج نے ہمیں ایک نیا اور ایک پر اعتماد موضوع دیا، جس پر ہم بہت شدت سے کام کر رہیں ہیں۔ بالاآخر ہمیشہ کی طرح ہمارئے موضوعات کی بڑھتی ہوئی پروفائل،مشرق وسطی اور اسلام، نے ہمیں محنت کرنے اور اس کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ہمیں حوصلہ دیا۔
سوال: کس چیز نے مڈل ایسٹ فورم کو اتنا نمایاں مقام دیا؟
جواب: ہم اپنے کام کو گہرئے مطالعے کی بنیاد پر کرتے ہیں، بہت زیادہ وضاحت کرتے ہیں، اور اپنی پیشن گوئیوں پر غیر معمولی خطرات مول لیتے ہیں ، ہماری جرات مندانہ پوزیشن، اور ہماری حکمت عملی کے مشورئے۔
سوال: 1995 ء میں آپ کو خبردار کیا گیا : بہت سے مغربیوں نے اس طرف دھیان نہ دیا،[ اسلام پسندوں ] کی طرف سے یورپ اور امریکہ پر یکطرفہ جنگ کا اعلان کر دیا گیا۔" جب آپ کی پیش بینیوں کی وجہ سے آپ کی تعریف کی گئی تھی، لیکن 11\9 تک تمھارئے نظریات کو بہت حد تک نظر انداز کیا گیا تھا۔ کیا آج بھی اسی طرح کا خطرہ موجود ہے جس کو مناسب عوامی توجہ حاصل نہیں ہوئی؟
جواب: دو باتیں ذہین میں آتیں ہیں۔ جب کہ اب اسلامی دہشت گردی کے خطرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو کہ ابھی تک قانونی اسلام ازم کا ایک بہت خطرناک پہلو ہے، جو شریعت کے نظام کو لاگو کرنے کے لیے کام کرتا ہے، اس کو بہت زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطی کی زوال پذیری کی شدت اور وسعت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کو انفرادی مسائل کے بارئے میں معلوم ہے – جیسے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تعمیر کر رہا ہے، شام میں آتش زدگی، مصّر میں پھیلتی بھوک، یمن میں پانی کی قلت،لیبا میں انتشار – لیکن ایک بیمار تنزل پذیر اور خطرناک خطے کے بارئے میں بھول جاتے ہیں۔ جب حقیقی مسائل جنگ اور قحط درپیش ہوتا ہے تب یہاں جمہوریت اور اقتصادی ترقی کے بارئے میں بہت زیادہ خوشگوار طریقے سے بات چیت ہوتی ہے ۔
سوال : جب فورم کا آغاز کیا گیا ،تب اسلام ازم وسط میں ایک بہت دوردراز اعلی رتبے پر تھا ۔ کیا ابھی بھی یہ ہی معاملہ ہے۔
جواب: میں علامات دیکھتے ہوئے یہ رائے دئے رہا ہوں کہ اسلام پسند آپس میں بھی تعاون کرنے سے قاصر ہیں اور اپنی ماتحت عوام کو متنفر کر رہے ہیں۔ اگر اس معاملے کے تحت ایسا ہی ہوتا رہا، تو اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اسلام پسند اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ چیلنج اینٹی اسلام پسند مسلمانوں کے لیے ہے کہ اب وہ اس کے متبادل کے طور پر اپنے نظریات پیش کریں جو قابل عمل ہو۔
سوال: 1994 ء میں امریکہ نے پہلے یہ کہہ دیا تھا جس کو 1998 ء میں فرانس کے وزیر خارجہ ہیبرٹ ویڈرین نے مشرق وسطی کے ساتھ بغیر کسی دشمنی کے "ہائپر پاور " کہا ۔ کیا معاملات اس کے بعد سے اسی طرح بڑھ رہے تھے ؟
جواب: دو دہائیوں سے مواقعوں کوکھو دینا، مجرمانہ مہمات، سرکش تجاوزات، اور ناقص الفاط کی تائید کرنا تباہ کن حالات میں موزوں عروج تہران کے ساتھ جنیوا معاہدہ پر صرف ایک دستخط کرنے سےہوئے۔ نہ صرف امریکہ غلط سمت میں جا رہا ہے بلکہ امریکی پالیسی بھی ،جو کہ ایک مضطرب امتزاج کو پیدا کر رہے ہیں ۔
سوال: کیا اسلامک سٹڈيز اور مشرق وسطی اپنے سیاسی کھیل کی وجہ سے مشہور ہے، یہ اسلام پسندی کو فروغ دیتا ہے اور اس کی فلسطین کے " مصائب " پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے جو کہ ایک کامیاب کرئیر کے لیے بہت ضروری چیز ہے – جو گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان پھیلا؟
جواب: زیادہ نہیں لیکن میں نے دو مثبت اعتراضات کو نوٹ کیا ۔ یہ فیلڈ اب ایک عوامی بحث کا موضوع بن گی ہے ، اس کی بلند درجہ پروفائل اور ہمارئے کام پر کی جانے والی تنقید کا شکریہ۔ اس کے ساتھ ساتھ 11\9 ، اور افغانستان اور عراق ، کی دو اہم جنگيں جو اس جماعت میں اس نئی جماعت کو لے کر آئی، جس نے اس میں خوشگوار تازہ فضاء اور بہت زیادہ اعتدال پسندانہ زندگی پیدا کرنے کا وعدہ کیا۔
جواب: آپ ان میں سے مڈل ایسٹ سٹڈیز کے سکالرز کو کیا نصیحت کریں گے جنھوں نے صرف اسے ابھی شروع ہی کیا ہے اور جو سامراجی یونیورسٹی میں ہونے والے مکالمے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔
جواب: سیاسی موضوعات سے دور رہیں اور جب تک آپ مالک نہیں بن جاتے تب تک ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سر کو نیچے رکھیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔