یہ ہفتہ اس لحاظ سے بہت نمایاں رہا کہ 60 سال بعد مصّر کی خود ساختہ فری افسران نے بادشاہ فاروق کی آئنیی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔ اور کوئی بھی اس کا تصور کر سکتا ہے کہ فوجی مطلق العنانی سے نجات کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ، جس نے ملک کو بہت طویل مدت تک مصائب سے دوچار رکھا۔ بہت افسوس کی بات ہے ، کہ غالبا اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس کا متبادل ایک بدترین حکمرانی کو لے کر آئے گا۔
بادشاہ فاروق اول ( 1936 ء سے 52 ء ۔ آر ) |
بادشاہت کے زمانے میں غلط کاموں کا دوردورہ تھا، ظالمانہ طریقے کی آمدنی کے معیار سے لے کر پر تشدد تحریکوں تک ( جن کے درمیان سب سے زیادہ اہم ترین، اخوان المسلمون تھے) لیکن یہ ایک جدیدیت، معشیت کی ترقی، اور دنیا میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا دور تھا۔ صنعت شروع ہو چکی تھی، خواتین نے اپنے نقاب اتار دئیے تھے، اور مصّری خوشنماء اقتدار نے عربی بولنے والے ممالک پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے۔ طارق عثمان اس وقت کو اپنے بہترین زمانے میں مصّر کنارئے پر : ناصر سے مبارک تک ( ییل ) کو " لبرل، مسحور کن، بین الاقوامی کے طور پر یاد کرتا ہے۔"
جرنیلوں اور کرنلوں کی سنسان حکمرانی 23 جولائی، 1952 ء سے شروع ہوئی، جس کی قیادت پر عزم جمال عبدالناصر نے سنبھالی ( 1954 ء سے 70 ۔ آر ) اس کے بعد زبردست انورال سادات ( 1970 ء سے 81 ء ۔آر ) نے اس کی جگہ لی، پھر عظیم الشان حسنی مبارک نے ( 1981 ء سے 2011 ء ۔ آر ) تک ۔ الناصر ان تینوں سے زیادہ بد ترین حکمران تھا، جو کہ سرمایاداروں کے ساتھ اور سامراج مخالف کے ساتھ ان پر ایک بری آفت کی طرح حاوی رہا ؛ اس کی حکمرانی کے دوران ذاتی جائیدادوں کی سنگین ضبطگی اور احمقانہ خارجی مہمات ( شام کے ساتھ، اسرائیل کے خلاف، یمن میں) اخرجات میں بے پناہ اضافہ جس کی ملک ابھی تک ادائیگی کر رہا ہے۔
صدر محمد نجیب ( 1953 ء سے 54 ء ۔ آر ) |
حکومت دھوکہ دہی میں مہارت رکھتی تھی۔ برسراقتدار مجمعے نے مفتیوں کا بھیس بدل لیا یہاں تک کہ فوجیوں کی طاقت معشیت، سیکورٹی سروسز، آئین سازی، اور عدلیہ تک پہنچ گئی۔ شامی نقاب پوشوں کے ساتھ اتحاد ایک تلخ دشمنی کو لے کر آیا۔ اسلام پسندوں کے ساتھ دکھاؤئے کی دشمنی نے لوٹ مار کے دوران ایک گھنونے مقابلے کو چھپا دیا ۔ بھیس بدل کر اسرائیل کے ساتھ امن جبکہ دوسرئے ذرائع کے ذریعے اس کے ساتھ جنگ و جدل کو جاری رکھا۔
فوجی جوتوں کی طویل، دردناک، اور رجعت پسندانہ دورئے حکومت کے دوران پر معنی انڈیکس کے مطابق مصّر معیار زندگی سے لے کر سفارتی اثرورسوخ تک پسماندگی کا شکار ہوتا گیا، یہاں تک کہ آبادی چار گنا تک بڑھ گئی 20 ملین سے لے کر 83 ملین تک اور اس دوران اسلامی نظریے کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ عثمان کے مطابق 1952 ء میں مصّر اور جنوبی کوریا سماجی اور اقتصادی لحاظ سے برابر تھے ؛ جبکہ اب مصّر بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ کس طرح فوجی حکومت کے زیر اثر" معاشرئے نے ترقی نہیں کی "لیکن اس کے برعکس " بہت سے محاذوں پر یہ حقیقت میں بہت پیچھے رہ گیا۔"وہ اس بات کی شناخت کرتا ہے کہ 1952 ء کے بعد سے " ایک فوجی شکست کے، ناقابل تلافی نقصان کے معنوں کا ایک انتہائی شدید احساس۔" فٹ بال کے کھیل سے لے کر شاعری تک ہر ایک شکست کا احساس رکھتا ہے۔
صدر جمال عبد الناصر ( 1954 ء سے 70 ء ۔ آر ) ۔ |
اپنے اقتدار کے 30 سال مکمل کرنے پر، حقارت آمیز جملے کے دوران، فرعون حسنی مبارک نے اس کے فوجی ساتھیوں کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی تک وہ مزید پیسے چوری کرنے کا خواہش مند تھا، یہاں تک کہ اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ افسران کو ان کا حصّہ دینے سے مکر گیا ، اور ( اس کی بیوی کے دباؤ کے تحت )اس کی کوشش کرتا رہا، کوئی دوسرا فوجی حکمران نہیں تھا، مگر اس کا بیٹا بینکر جمال، نے اسے ایک صدر کے طور پر کامیاب کروا دیا۔
مشتعل جنرل افسران نے ان کےدور میں انھیں حکم دیا۔ جب 2011 ء کے آغاز میں تحریر چوک پر بہادر ، سیکولر، اور جدید نوجوانوں نے باطل حکومت کے ساتھ اپنی بے چینی کا اعلان کیا، تب فوجی حکومت نے مبارک کو حکومت سے دھکے مار کر نکالنے کے لیے ان کا استحصال کیا۔ آزاد پسندوں کا خیال تھا کہ وہ جیت گئے، لیکن ان کو محض ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیااور فوج کے لیے بہانے کے طور پر اپنے حقیر مالک سے چھٹکارا پا لیا۔ اپنے مقاصد کی انجام دہی کے لیے ، آزاد خیالوں کو افسران کے طور پر ایک طرف دھکیل دیا گیا اور اسلام پسند لوٹ مار کے لیے مقابلہ کرتے رہے ۔
صدر انور السادات ( 1970 ء سے 81 ء ۔ آر ) |
کون ہمیں موجودہ زمانے میں واپس لے کر آئے گا: مسلح افواج کی سپریم کونسل ابھی بھی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں، اخوان المسلمون ان کو وہاں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کون سی نااہل مطلق العنان فورسز جیتیں گیں؟ میرئے خیال کے مطابق ایس- سی- ائے- ایف کے پاس 80 ٪ چانس ہے کہ وہ اقتدار سنبھالے گی، اس کا یہ مطلب ہوا کہ اسلام پسند صرف اس صورت میں غالب آئیں گے اگر وہ زیادہ سے زیادہ صیلاحیتوں کا مظاہرہ کریں ایس- سی- ائے- ایف نے بہت زیادہ چالاکی سے اخوان المسلمون کے سب سے زیادہ کرشمائی اور قابل رہنماء خیرات اللہ الشاطر کو مشکوک تکنیکی بنیادوں پر وہاں سے ہٹا دیا ( مبارک کی حکومت میں اس کر قید کروا دیا )۔ اس کے مقابلے میں اخوان المسلمون کے معیاری علمبردار اور ملک کے نئے صدر کے طور پر کم اہل محمد مورسی کو رہنے دیا۔ اس کے اقتدار کے پہلے چند ہفتوں میں وہ ممبلر اور بمبلر کے طور پر نظر آیا جس کو سیاسی جنگ کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی یہاں تک ایس- سی- ائے- ایف کے نااہل عملے کے خلاف بھی۔
جیسے کہ مصّریوں نے فوج کے اقتدار پر قبضے کی 60 ویں سالگرہ برداشت کی ، انھیں اب تھوڑا سا آگے بھی دیکھنا ہو گا۔ اگر 23 کی تقریبات امکانی طور پر ان کا انتظار کر رہیں ہیں ، تو کم سے کم وہ اسلام نظام حکومت کی پہلی سالگرہ سے دوچار نہیں ہوں گے ۔ اسلام پسند نطریہ سازوں کی نسبت بہتر ہے کہ لالچی فوجی اقتدار میں آجائیں۔
لیکن مصّری اور ان کےبیرونی ملک حمایتی حالات کو بہتر کر سکتے ہیں۔ وہ ازاد خیال جنھوں نے تحریر چوک میں جلوس نکالا وہ ہی اب صرف ملک کی واحد امید اور مغرب کے اکیلے اتحادی ہیں : وہ مدد کے مستحق ہیں۔ تاہم وہ اقتدار کے دروازوں سے کوسوں دور ہیں ، ان کا عروج منفرد طور پر ظلم وزوال کے ساٹھ سالہ خاتمے کی پیشکش کرتا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔