واشنگٹن ٹائمز کے عنوان کے مطابق: " مشرق وسطی جدید بنانے کی کوشیشوں کی پرزور طریقے سے مزاحمت کر رہا ہے"
حالیہ عراق، فلوجہ کا زوال ، جو کہ القاعدہ سے وابستہ گروپ ہے جوکہ ایک امریکی وسائل کی ایک ناپسندیدہ باقیات کو فراہم کرتا ہے جنھوں نے 2004 ء سے لے کر 2007 ء تک اپنی زندگیاں شہر کو کنٹرول کرنے میں وقف کر دیں۔ ان تمام تر کوشیشوں پر بہت کچھ خرچ کیا گیا اور اس سے کچھ حاصل نہ ہوا ۔ اسی طرح افغانستان کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سینکڑوں بلین ڈالر کی رقوم کو خرچ کیا گیا جو کہ پھر بھی 72 قیدیوں کو رہائی کو نہ روک سکا جنھوں نے امریکیوں پر حملہ کیا۔
" عراق اور شام میں اسلامی ریاست" جو باضابطہ طور پر فلوجہ،عراق کو فتح کرنے کے بعد القاعدہ کا حصّہ بنیں۔ |
یہ دو مثالیں ایک بہت بڑئے نتیجے کی طرف اشارہ کرتیں ہیں مشرق وسطی میں فسادات اتنی انتہائی حد تک پھیلے ہوئے ہیں ( قابل ذکر اسرائیل کے علاوہ )کہ بیرون طاقتیں بھی ان کا تدارک نہیں کر سکتیں۔ یہاں اس کا ایک خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے :
پانی کی کمی ہو رہی ہے ۔ ایتھوپیا میں بلیو نیل پر ایک ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے جو کہ سالوں تک ایک تباہ کن مقدار کی طرف سے مصّر کی فراہمی میں ایک معقول حد تک کمی لانے کے خطرئے سے اگاہ کر رہی ہے ۔ شام اور عراق پانی کمی کے بحران کا شکار ہیں کیونکہ دجلہ فرات کے دریا خشک ہو رہے ہیں ۔ نشہ آور قات پودئے کی افزائش نے یمن کی محدود فراہمی کو بھی بہت حد تک جذب کر لیا ہے وہ صنعاء جو پہلے کبھی جدید دارالحکومت شہر تھا جس کو خشک سالی کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔ سعودی عربیہ میں گندم – اگائی جانے والی سکیموں کو ناموزوں قرار دیا گیا جس نے آبی زندگی کو ختم کر دیا۔
دوسری طرف، عراق میں ناقص تعمیر کیا گیا موصل ڈیم گر سکتا ہے، جو فوری طور پر نصف ملین آبادی کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا، اور بہت سے لوگوں کو بجلی اور خوراک کے بغیر پانی میں پھنسے ہوئے چھوڑ جائے گا۔ غزہ میں سویج کا مسئلہ روز بروز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بہت سے ممالک بجلی کی فراہمی کے منقطع ہونے سے پریشان ہیں، اور خاص طور پر سخت گرمی میں جب معمول کے مطابق درجہ حرارت 120 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔
ایک عظیم ایتھوپیا کے ڈیم کی حیات نو کے لیے ایک فنکار کی ترجمانی جو کہ اب زیر تعمیر ہے۔ |
لوگوں کی تعداد میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں کی انتشارانگیزی کا سامنا کرنے کے بعد خطے کی شرح پیدائش دن بدن کم ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایران بہت تیزی سے شرح پیدائش میں کمی کا شکار ہو گیا ، اتنی کمی جو کہ ابھی تک کسی اور ملک میں ریکارڈ نہیں کی گی، 1997 ء میں فی عورت 6.6 بچوں کی پیدائش سے 2012 ءمیں یہ صرف فی عورت 1.6 بچوں کی پیدائش کی شرح رہ گی ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا گیا جس کو ایک تجزیہ نگار " ناگہانی دنیا کا خاتمہ کہہ کر بلاتا ہے " جس نے ایران کی جارحیت کو مشتعل کر دیا۔
مفلس سکول جابرانہ حکومتیں ،اور قدیم سماجی ثقافت اقتصادی ترقی کی انتہائی پست شرح کی یقین دہانی کرواتی ہے ۔ مصّر، شام¸یمن، اور افغانستان کا شکار ہیں۔
تیل اورگیس کے وسیع ذخائر نے زندگی کے تقریبا ہر پہلو کو مسخ کر دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں چھوٹے پیمانے پر موجود قرون وسطی کے زمانے کی طرح کی بادشاہی سلطنتیں جیسے کہ قطر میں جو کہ اب اتنی غیر حقیقی عالمی طاقتیں بن چکی ہیں کہ وہ لیبیا اور شام میں جنگ سے کھیل رہے ہیں، اس بات سے قطع نطر کہ وہ کس قدر جانی نقصان کر چکے ہیں، ایک بڑئے پیمانے پر غیر ملکی کارکنوں کے نچلے طبقے کو چال بازیوں کے ذریعے دور رکھا جاتا ہے ، اور ایک شہزادی کے لیے فن کو خریدنے کے لیے ایک بہت بڑئے بجٹ کو مقرر کیا جاتا ہے ۔ امیر ترین طبقہ ظالمانہ کاروائیوں میں ملوث ہو سکتا ہے ، جو کہ اپنا بچاؤ تعلقات اور پیسے کی بنا پر کر سکتے ہیں۔ غریب ممالک جیسے کہ انڈیا میں جنسی سیاحت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
الامائسا بنت حماد بن خلیفہ الثانی ( بی۔ 1983 ء )، قطر کے امیر کی بہن اور قطر عجائب گھر کی چئرپرسن، کے بارئے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ فن پر سالانہ ایک بلین ڈالر خرچ کرتی ہے۔ |
جمہوریت اور سیاسی شمولیت پر کی جانے والی کوشیش یا تو ختم ہو گی، جیسے کہ مصّر میں، یا انھوں نے مذہبی جنون کو بڑھا دیا جیسے کہ ترکی میں جس نے بہت چالاکی سے ان کے مقاصد کو چھپا دیا۔ لالچی ظالم حکمرانوں کا تختہ الٹنے کی کوشیشوں کے نتیجے میں بدترین نطریاتی حکمران باقی بچے ( جیسے کہ 1979 ء میں ایران میں ) یا ( لیبیا میں ہونے والا) انتشار۔ ایک مشترکہ بنیاد جس کو دونوں طرف ہی گنوا دیا گیا۔ قانون کی حکمرانی ایک سراب کی طرح باقی رہ گئی۔
اسلام پسندی، فی الحال سب سے زیادہ متحرک اور دھماکی آمیز سیاسی نطریہ ہے، جس کا خلاصہ کمزور حماس نے اسرائیلیوں کو یہ اعلان کرتے ہوئے پیش کیا: " جیسے کہ تم زندگی سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو اسی طرح ہم موت سے بہت ویادہ محبت کرتے ہیں۔" کثرت الازواج ، برقعہ، اعضائے تناسل کو نقصان پہنچانا، اور غیرت کے نام پر قتل نے مشرق وسطی کی خواتین کو دنیا کی مظلوم ترین خواتین بنا دیا ہے۔
مشرق وسطی کی زندگی شدید تعصبات سے درجار ہے۔ اکثر عہدئےدار – جو کہ مذہب، فرقہ، نسل، قبیلہ، رنگ، قومیت، جنس، جنسی رحجان، عمر، شہریت، کام ، اور معذوری کی بنیاد پر ہیں۔ غلامی کی زندگیایک اہم مسئلہ ہے۔
سازشی نظریات، سیاسی متعصب پن، ناپسندیدگی کے جذبات، جبر، انتشار، اور جارحیت کا خطے کی سیاست پر راج ہے۔
جدید افراد کے تصوارات ایسے معاشروں میں کم حثیت ہی رہتے ہیں جہاں خاندان کی اصلی بانڈز، قبیلہ ،اور برادری غالب رہیں گے۔
صدام حسین کے عراق کے ساتھ الحاق کرنے سے پہلے ،اعلی حسین علی (1 ) نے اگست 1990 ء میں عوامی جمہوریہ کویت پر چھ دن کی حکومت کی۔ |
مشرق وسطی تمام ممالک کے بارئے میں خبریں رکھنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اسرائیل سب سے زیادہ ممکنہ شکار ہے جبکہ کویت اصل میں ڈیڑھ سال کے لیے منطر عام سے اوجھل ہو گیا جبکہ لبنان، اردن، اور بحرین کو کسی وقت بھی شکار بنایا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطی کی ریاستیں اپنے مال کی غیر معمولی رقوم اینٹلی جنس سروسز اور فوج پر خرچ کرتے ہیں، ایک دوسرئے کو چیک کرنے کے لیے فالتو فورسز کو تشکیل دی جاتی ہے۔ وہ ٹینک ، جہاز، اور کھلونے حریدنے کے لیے بیرون ملک جانے کا خطرہ مول لیتے ہیں ۔ وہ کیمیائی ، حیاتیاتی، اور جوہری ہتھیاروں پر غیر معمولی وسائل کو خرچ کرتے ہیں اور ان کو بہم پہنچانے کے لیے پلیٹ فارم بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپ نے سازش کرنے کے لیے ڈبلیو۔ ایم- ڈی حاصل کی۔ دہشت گردی کے جدید ترین طریقوں کو مشرق وسطی میں ترقی مل رہی ہے۔
اقتصادی اور سیاسی ترقی نے پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جنم دیا: جیسے کہ 1980 ء کے بعد سے افغانی دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی بن گی ؛ اب شام کی طرف سے یہ خطرہ ہے کہ وہ اب ان کی جگہ لے لیں گے، جو کہ اپنے مہاجر ملک میں غربت اور افراتفری کا بیج بو رہے ہیں۔ مایوس لوگ مغربی ممالک کے لیے اکھٹے مل کر خطے کو چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جن میں بہت سے لوگوں میں سے چند راستے میں ہی مر جاتے ہیں۔ وہ اپنے خطے سے سویڈن اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں فسادات کو لے کر آتے ہیں۔
انسویں صدی کے سفارت کار خلافت عثمانیہ کو " یورپ کے پسماندہ لوگوں " کا خطاب دیتے ہیں۔ اب میں پورئے مشرق وسطی کو " پسماندہ آدمیوں کی دنیا " کا خطاب دؤں گا۔ خطے کی نفرتوں، انتہاپسندی، تشدد، اور مطلق العنیات کا تدارک کرنے میں کئی دہائیوں کی ضرورت ہے۔
تاہم شائد یہ عمل ہو تو، باہر کی دنیا کا مشورہ یہ ہو گا کہ مشرق وسطی کے – ایک مایوس کن کام – کو حل کرنے کے لیے جان کے نذرانے لگانے یا مال پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے– جب کہ اس خطے کے بہت سے خطرات جیسے
کہ مشرق وسطی کا ریسپریٹری سینڈروم ( میرس ) اور حرم سرا سے ایک بڑی دہشت گردی کی طرف اور برقی مقناطیسی لہروں سے اپنی حفاظت کی جائے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔