واشنگٹن ٹائمز کے عنوان کے مطابق : مشرق وسطی میں ایک دوسرئے سے مماثلت کی بناء پر نقل مکانی: شام کی خانہ جنگی علاقے کے استحکام کا خاتمہ کر سکتی ہے"
شام کی چار سالہ خانہ جنگی کے نتیجے میں آبادیاں تبدیل ہو رہیں ہیں جس نے شام اور اس کے تین عربی بولنے والے ہمسائیہ ممالک کو بہت زیادہ تبدیل کر دیا ہے جو کہ یہ ہیں: عراق، لبنان، اور اردن ( ترکی اور اسرائیل بھی تبدیل ہوئے لیکن بہت کم حد تک ) ستم ظریفی یہ ہے کہ ، دہشت اور سانحوں کے پیش نظر، آبادیاں جدید قوم پرستی کی سفاکانہ ضروریات کر اپنا رہیں ہیں، یہ تمام چار ممالک تھوڑا سا زیادہ مستحکم ہو رہے ہیں۔ اسی وجہ سے لڑائیاں قوموں کو ایک نسلی اقلیت کے مقام سے نسلی اکثریت کے مقام کی طرف منتقل کر رہی ہیں، ایک جیسے لوگوں کو ایک جیسے لوگوں کے ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔
ہر ایک ملک پر دیکھنے سے پہلے ، ان کا کچھ پس منظر: سب سے پہلے بلقان کے ساتھ ساتھ ، مشرق وسطی دنیا میں انتہائی پیچیدہ اور غیر مستحکم نسلی، مذہبی، لسانی، قومی ملاپ رکھتا ہے۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر سرحد پار اتحادی اتہائی شدید پیچیدہ مقامی سیاست کرتے ہیں۔ اگر جنگ عظیم اول کے لیے بلقان کو مقرر کیا جا سکتا ہے ، تو مشرق وسطی ایک بہتر طریقے سے تیسری جنگ عظیم کو بھڑکا سکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ، دو اہم فرقے سنی اور شیعہ کے درمیان تاریخی کشیدگی ، 1979 ء میں آیت اللہ خیمانی کے اقتدار میں عروج میں آنے سے پہلے بہت حد تک ختم ہو گئی تھی۔ تہران کی طرف سے کی جانے والی جارحیت نے ، اسے نئے سرئے سے بھڑکا دیا ہے۔
ایران اور عراق کے درمیان 8 سالہ 1980 ء سے 1988 ء تک سفاکانہ جنگ نے سنی شیعہ دشمنی کو بڑھانے میں بہت اہم کردار اداء کیا ہے۔ |
تیسرا یہ کہ ، سامراجی یورپی طاقتیں تقریبا مشرق وسطی میں رہنے والی عوام کی شناخت کو نظر انداز کر دیتی ہیں جبکہ وہ خطے کی بہت سی سرحدوں کی حدود کو مقرر کرتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ دریاؤں، بندرگاہوں ، اور دیگر وسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جو کہ انھیں اقتصادی مفادات فراہم کرتے ہیں ۔ کسی حد تک تصادفی مقرر ممالک ( مثال کے طور پر اردن ) موجودہ خرابی کا نتیجہ ہیں۔
آخر میں، کرد وہ لوگ تھے جنھوں نے ایک صدی پہلے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ؛ اپنا مقدمہ تیار کروانے کے لیے ان کے پاس دانشوروں کی کمی تھی، انھوں نے خود کو چار ریاستوں میں بٹا ہوا پایا اور ان سب میں ان پر مظالم کیے گئے۔ آج ، وہ آزادی کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔
پر آبادیاتی تبدیلی کی تصویر بناتے ہوئے Pinhas Inbari شام اور اس کے ہمسائیہ ممالک کی طرف واپس آتے ہوئے (
کہ : کس طرح شام کی جنگ خطے کی تشکیل نو کررہی ہے) :
شام اور عراق نے واضح طور پر ملکی سیاست میں ایک جیسی نئی صورت حال کو برداشت کیا ہے ۔ 2000 ء اور 2003 ء میں ظالم آمروں کی برطرفی کے بعد ، ہر ملک ایک جیسی تین نسلی یونٹس – شیعہ عرب، سنی عرب، اور کرد میں تقسیم ہو گئے۔ تہران شیعوں پر مشتمل دونوں ریاستوں پر غالب آ گئے ( ترکی، سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، قطر ) نے سنی باغیوں کو پیچھے ہٹا دیا ۔ کردوں کو عرب سول جنگ سے واپس بلایا گیا کہ وہ اپنی خودمختاری والے علاقوں کی تعمیر کريں ۔ کسی زمانے میں آمریت بامشکل ہی خارجہ پالیسیوں کے کام کاج کو ترقی دیتی تھی ۔ اس کے علاوہ، شام اور عراق کو الگ کرنے والی ایک صدی پرانی سرحدی لائن جو کہ بہت حد تک مٹ چکی ہے ۔
شام : شام کے علاقے میں ابھی بھی بشر الاسد کی حکمرانی ہے جو کہ زیادہ تر شیعہ بنتا جا رہا ہے ۔ ایک اندازئے کے مطابق جنگ سے پہلے شام کی 22 ملین آبادی میں سے نصف آبادی کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا؛ جن میں سے 3 ملین مہاجرین تھے ، جن میں سے زیادہ تر سنی تھے ، جو کہ ملک سے فرار ہو کر بھاگے تھے ان دونوں کی واپسی کا امکان نہیں ہے کیو نکہ خانہ جنگی ایسے ہی جاری و ساری رہی اور اسد حکومت نے ان کی شہریت کو منسوخ کر دیا ۔ حکومت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اردن کے سرحدی علاقوں کے قریب اپنے کنٹرول میں کمی کر دی تاکہ وہ شام سے فرار ہونے میں سنیوں کی مدد کر سکیں۔ شیعہ آبادی کو بڑھانے میں ایک اور ڈرامے کی ، رپورٹ یہ طاہر کرتی ہے کہ اس نے تقریبا 500،000 عراقی شیعوں کا خیر مقدم کیا اور انھیں دوبارہ آباد کیا ، کچھ شامی شہریت دینے کے بارئے میں مذاکرات کیے ۔
بشر الاسد ایک آمر کی نسبت ایک بہتر تراشتھائی رہے گا۔ |
) فراہم ISIS/ISIL عراق : شامی خانہ جنگی عراق میں منتقل کرنے کے موقع کے ساتھ ایک اسلامی ریاست ( یا کرئے گی ، جو کہ فلوجہ اور موصل جیسے شہروں پر قبضہ کریں گے جس کے نتیجے میں غیر سنی ( خاص طور پر شیعہ اور یزیدی ) نقل مکانی کر جائیں گے ، اور وہ پھر سے عراق کی تشکیل نسلی بنیادوں پر کریں گے ۔ ملک کی مخلوط آبادی کی طرف دیکھتے ہوئے ، خاص طور پر بغداد کے علاقوں میں ، یہ ایک سال ہو گا – شائد دہائیاں فریقین اپنے مسئلے کا حل خود نکال لیں گے ۔ لیکن یہ عمل ایک اٹل حقیقت کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔
لبنان : سنیوں کا اثرورسوخ بہت زیادہ بڑھا ہے ، جو کہ ایرانی طاقت کو دوبارہ شکست دئے رہے ہیں ۔ شام سے لاکھوں نئے سنی اب ملک کی آبادی کے 20 ٪ حصّے پر مشتمل ہیں ، جو کہ اب سنی ابادی کو تقریبا دوگنا کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ ، بھی ، جس کی تنظیم لبنان میں بہت زیادہ طاقتور ہے ، وہ بھی اپنے انتخابی حلقے کو نظر انداز کر رہا ہے ، جو کہ اسد حکومت کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے شام میں مقامی سطح پر اپنا اثرورسوخ کھو رہا ہے۔
شام میں موجود حزب اللہ ملشیاء اپنے ہی مادر وطن لبنان میں گروپ کے اثرورسوخ کو کم کر دیتا ہے ۔ |
اردن : شامی پناہ گزینوں کی حالیہ آمد تقریبا ابتدائی طور پر دس لاکھ عراقی پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے بعد ہوئی ۔ ان دو گروپوں نے ایک ساتھ مل کر اردن میں فلسطینیوں کی فیصد تعداد کو اس نقطہ نظر کے لحاظ سے کم کر دیا ہے کہ بعد میں آنے والے شائد مزید ملک کی اکثریتی آبادی کو تشکیل نہیں دیں گے ، جو کہ ایک اہم سیاسی مضمرات کے ساتھ ایک تبدیلی ہے ۔ کسی ایک کے لیے یہ فلسطینیوں کے خطرئے کو ہاشمی بادشاہت کے لیے ممکنہ طور پر کم کر دیتی ہے ؛ کسی دوسرئے کے لیے اردن – فلسطین ہے ، کی وقعت کو کم کر دیتا ہے جیسے کہ کچھ اسرائیلیوں کی طرف سے اس کی بہت زیادہ طرف داری کی جاتی ہے ۔
مختصر یہ کہ ، عراق اور شام اپنے مذہبی دستور سازی اور نسلی حصّوں میں تقسیم ہوتے جارہے ہیں ، لبنان میں سنیوں کی تعداد زیادہ اور اردن میں فلسطینیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔ تاہم شامی حانہ جنگی کی ہولناک انسانی قیمت، اس کے طویل مدتی اثرات ممکنہ طور پر مشرق وسطی کو ایک کم آتش پذیر جگہ بنا دیتی ہے ، کوئی ایک جو کہ تیسری جنگ عظیم کو متحرک کرنے کے امکان کو کم کر دیتا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔