سٹیون آیمرسن کی طرف سے فوکس نیوز پر کیے جانے والے تبصرئے نے ایک گرما گرم بحث کو جنم دیا کہ آیا یورپ میں مسلم اکثریت کا کوئی ایسا علاقہ موجود ہے جو کہ " ممنوع " ہے۔ 11 جنوری کو، ایمرسن نے کہا کہ وہ علاقے پورئے یورپ میں موجود ہیں ۔۔۔۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں فرانس، برطانیہ، سویڈن، جرمنی کی طرح کی حکومتیں کسی بھی خودمختاری کا استعمال نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔ آپ کے پاس بنیادی طور پر ایسے علاقے موجود ہیں جہاں شریعی عدالتیں قائم ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے، جہاں پولیس بھی اندر نہیں جا سکتی، اور جہاں یہ تقریبا ایک علیحدہ ملک لگتا ہے، ایک ملک کے اندر ایک اور ملک۔"
سٹیون آیمرسن نے 11 جنوری کو فوکس نیوز چینل پر، مسلم اکثریتی علاقوں کے بارئے میں بات چیت کی۔ |
تاہم، ایمرسن جس کی میں نے اخلاقی جرات اور تفشیشی مہارت کی تعریف کی، اس نے فورا اپنی " خوفناک غلطی" کی معافی مانگی جس میں انھوں نے کہا کہ برمنگھم، انگلینڈ جیسے شہر، " مکمل بطور مسلمان ہیں جہاں بس غیر مسلمان نہیں جا سکتے،" کیا اس نے اتنے بڑئے سوال کے بارئے میں یہ بیان نہیں دیا کہ آیا کوئی " ممنوع علاقہ " ہے، حقیقت میں ، کیا ایسے علاقے " پورئے یورپ بھر میں موجود ہیں " اور ایسے مقامات جہاں حکومتیں " کسی بھی خود مختاری کا استعمال نہیں کر سکتیں۔"
کیا وہ اس کے بارئے میں درست ہیں؟
2006 ء میں ایک ویب لوگ انٹری، میں نے مسلمان محصور علاقوں کو یورپ میں ممنوع علاقے کہہ کر پکارا فرانسیسی جملے زون عربیہ کے برابر مہذب نام دیا عقل مند یا شہری حساس علاقے ۔ ممنوع علاقے، آہستہ آہستہ انگلش زبان میں مغرب یورپ میں مسلم اکثریت علاقوں کو بیان کرنے کے لیے ایک معیار بن گیا۔
جنوری 2012 ء میں پیرس کے بینلیس ( مضافات ) ،اس کے ساتھ ساتھ اسی طرح کے ہم منصب اینتھر، برلن، برپوسکس، کوپن ہیگن، ہیگپو، مالمو، اور سٹاک ہولم میں اپنا کچھ وقت گزارنے کے بعد ، تاہم، میرئے خیالات تبدیل ہو گے۔ مجھے یہ پتہ چلا کہ" وہ علاقے مکمل طور پر ممنوع علاقے نہیں ہیں" جس کا مطلب ہے کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں حکومت نے اس علاقے میں اپنا کنٹرول کھو دیا ہے ۔ کسی جنگی دیوتے کا غلبہ نہیں ہے ؛ شریعت اس علاقے کا قانون نہیں ہے، میں نے واپس اس ممنوع علاقے کی اصطلاح استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ۔
اکتوبر 2010 ء میں برلن میں ایک ٹریول ایجنسی۔ |
تو، یہ مقامات کیا ہیں؟ ایک منفرد اور تاہم ایک گمنام مکس کے طور پر دوسری طرف مغربی یورپی ریاستیں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت اپنے خود مختار علاقے میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ وروس میں کی جانے والی فائرنگ اور اس کے بعد بیلجئیم میں ڈالے جانے والے چھاپوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی فورس – جس میں فوجی، اینٹیلی حنس اور پولیس بھی شامل ہے کی وجہ سے انھیں فائدہ حاصل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ان کو کنٹرول نہیں سونپ دیا ۔
مئی 2014 ء میں ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد بیلحئیم کے اینٹروپ یہودی علاقے میں پولیس فورس سے باہر تھی۔ |
دوسری طرف،حکومت اکثر اس بات کا انتخاب کرتی ہے کہ وہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں اپنی مرضی مسلط نہ کریں، انھیں کافی خودمختاری کی اجازت دی جاتی ہے ، جس میں بعض صورتوں میں شریعی عدالتیں بھی شامل ہیں جس کا ذکر ایمرسن نے کیا۔ شراب اور سؤر کا گوشت پرمؤثر طریقے سے ان ڈسٹرکٹس میں پابندی ہے، کثرت ازواج اور برقعہ عام چيزیں ہیں پولیس ایمرجنسی یا فورس سے داخل ہو سکتی ہے اور مسلمان باقی آبادی سے غیر قانونی جرائم کے لحاط سے دور رہتے ہیں۔
رادھرم، انگلینڈ، چائلڈ سیکس اسکینڈل اس کے بارئے میں ایک طاقت ور مثال پیش کرتا ہے ۔ ایک سرکاری انکوائری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 16 سال سے 1997 – 2013 مسلمان مردوں کا ایک حلقہ اغواء، عصمت دری، اجتماعی زیادتی، اسمگلنگ ، عصمت فروشی، تشدد کے ذریعے سے تقریبا 1،400 غیر مسلم لڑکیوں کا جنسی استحصال کر چکے ہیں جو کہ کم از کم 11 سال کی جوان ہو گیں ۔ پولیس کو ان لڑکیوں کے والدین کی طرف سے بہت زیادہ شکایات موصول ہوئیں ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا ؛ وہ فرائض انجام دئے سکتے ہیں، لیکن نہیں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔
انکوائری کے مطابق ، پولیس نے سی- ایس- ای ( چائلڈ جنسی استحصال ) کو کوئی ترجیح نہ دی ، جس کی وجہ سے بہت سے بچے بڑئے توہین آمیز طریقے سے اس کا شکار ہوئے اور اس جرم میں ان کے غلط استعمال کرنے پر کوئی بھی کاروائی کرنے میں ناکام رہے۔" بعض صورتوں میں ، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ، " باپ خود اپنی بیٹیوں کا سراغ لگاتے ہیں ، اور جن گھروں میں ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے انھیں وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور صرف اس صورت میں گرفتار کیا جاتا ہے ، جب پولیس کو جائے وقوع پر بلایا جاتا ہے ۔"بدترین لڑکیوں کو ، " صرف امن کی خلاف ورزی یا شراب نوشی کی حالت میں اور فساد کرنے جیسے کہ جرائم کرنے کی صورت میں گرفتار کیا جاتا ہے ، عصمت دری اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی کاروائی نہیں کی گی ۔"
ایک اور مثال ، برطانوی بھی، جنھوں نے نام نہاد آپریشن ٹروجن ہاؤس کیا جو کہ 2007 ء سے لے کر 2014 ء تک خوب پذیرائی حاصل ہوئی، جس میں( دوبارہ، ایک سرکاری انکوائری کے مطابق ) ، اسکول کارکنوں کا ایک گروپ نے تیاری کی ہے "جو برمنگھم میں کافی بڑی تعداد پر مشتمل سکولوں پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے اور انھیں سخت اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔"
کوئی ایک رادھرم اور برمنگھم کے واقع کو کیا نام دیا جائے گا، نہ ہی جغرافیائی یا خود مختاری کے لحاظ سے وہ ممنوع علاقے نہیں ہیں۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں ہم – ایمرسن ، اور دیگر( جیسے کہ بوبی جندل . لوسینیا گورنر ) اور میں چونک جاتے ہیں ۔ انگلش زبان میں جھٹ پٹ اس اصطلاح کی دستیابی کا فقدان ہے۔ اور اچھی وجوہات کے لیے : میں کسی بھی تاریخی مطابقت کے بارئے میں نہیں جانتا، جس میں ایک اکثریتی آبادی ایک غریب اور کمزور تارکین وطن کیمیونٹی کے رسم و رواج اور یہاں تک کہ ان کے جرائم کو بھی قبول کرتا ہے۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی چیز کا عصر حاضر کے ساتھ موازنہ ہو مغرب کی کامیابی کے امتزاج ، جس کی تشکیل بزدلی، اور جرم ، ایک بہت اعلی اقتدار کے مماثل جن کو استعمال کرنے میں زیادہ تذبذب کیا جاتا ہے۔
ممنوع علاقے کے باوجود، میں نیم خود مختار فرقوں کی تجویز پیش کرتا ہوں، ایک اصطلاح جو کہ غیر واضح اور غیر جغرافیائی نوعیت پر زور ڈالتی ہے –پس وہ زیادہ درست مباحثے کی اجازت دیتا ہے کہ کیا ، بحث کے قابل ہے، مغربی یورپ کا سب سے زیادہ شدید مسئلہ۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔