کینیڈا، اسرائیل، نائجیریا، آسٹریلیا، پاکستان اور فرانس مسلمانوں کی طرف سے اسلام کے نام پر کیے جانے والے کئی بڑئے حملوں کا ایک وبائی سلسلہ ایک واضح سوال اٹھاتا ہے : اسلامی جماعت کے مرتکب افراد کس طرح ان اعدادوشمار کا اندازہ لگائیں گے کہ ایک گارڈ آف آنر کا قتل کرنا ، پیدل چلنے والی جگہ پر کار ڈرائیونگ کرنا، مسافر بس میں غیر مسلمانوں کا قتل کرنا ، کیفے کے سرپرست کا قتل کرنا، یا فوجیوں کے بچوں یا کارٹونسٹ کا سر عام قتل عام کر کے وہ اسلامی قانون کا نفاذ کرنے اور خلافت کو تشکیل دینے کے مقاصد حاصل کر سکیں گے؟
منطقی طور پر ، ان کا تشدد صرف اس صورت میں ان کی مدد کر سکتا ہے اگر وہ اپنے دشمنوں کو دہشت زدہ کریں اور انھیں اسلام پسند خواہشات کے مطابق جھکنے پر مجبور کریں: دھمکیاں، اس کے باوجود ، دہشت گردی کا نچوڑ ہیں ۔ بعض اسلام پسند دہشت گرد اپنے ان مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر، ایک مصیبت سے دور رہنا ، فنکاروں کی ایک کثیر تعداد نے خود کو اسلام کے مطابق سنسر کر دیا ؛ اور 2004 ء میں میڈرڈ ٹرین میں ہونے والے بم دھماکوں کے جواب میں حکومت کی ناکام کوششوں نے اپوزیشن پارٹی کو جیتنے میں مدد دیتی ہے، تب عراق سے ہسپانوی افواج کو نکالا گیا۔
تاہم، اصولی طور پر، دہشت گردی ڈرانے دھمکانے کی طرف نہیں بلکہ غصے اور دشمنی کی طرف جاتی ہے، ایک پاپولیشن پر تشدد کرنے کی بجائے ، یہ شعور پیدا کرنا اور مسلمان اور غیر مسلمان دونوں میں برابر طور ر اسلامی نظریے کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلامی نطریے کو جدیدیت سے ہم آہنگ کیا جائے ، اعلی سطح پر کی جانے والی کاروائیاں اس کو نقصان پہنچاتیں ہیں ۔ اس کے بارئے میں کچھ درج ذیل مثالیں زیادہ نمایاں ہیں۔
1 ۔ 11\9 نے اسلام پسندی کو اس جگہ سے ہٹا دیا جہاں وہ فروغ پا رہا تھا، امریکہ کی زیر قیادت " دہشت گردی کے خلاف جنگ " کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اسلام مخالف جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
2 ۔ بسیلان میں 2004 ء میں سکول کے بچوں کا سر عام قتل نے لوگوں کے رویوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھر دیا اور ولادیمیر پوٹن کے اقتدار کو مضبوط ہونے میں مدد ملی۔
3 ۔ 2013 ء میں ہونے والے میراتھن بم دھماکوں نے ایک بہت بڑئے شہری علاقے کو بند کر دیا ، ملین لوگوں کو پہلی دفعہ مسلمانوں کے ظلم کا ذائقہ چکھنا پڑا۔
4 ۔ بدھ کو 12 افراد کی ہلاکت نے پیرس میں قومی موڈ کی خلاف ورزی کو جنم دیا کہ انھوں نے ساری دفاعی پوزیشن مسلمانوں پر ڈال دی جبکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اگر پہلے گھنٹے میں مستقبل کی پیش رفت کا انتطار کریں گے، تو فرانسیسی ووٹروں کا ایک اہم حصہ انتہاء پسند اسلام کے خلاف مزید مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرئے گا۔
" چارلی ہیبڈو " کا سر ورق جو اسلام پسندوں کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے۔ |
ستم ظریفی یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ غیر واضح کارؤائیاں نقصان دہ اثرات نہیں رکھتیں۔ بہت سی مثالوں میں سے ایک ، 2013 ء میں نیو جرسی میں دو قطبی عیسائیوں کا ایک مصّری مسلمان نے سر قلم کر دیا ، کچھ لوگوں نے اس کا نوٹس لیا اور جس کی وجہ سے تھوڑا سا غصّہ پیدا ہوا ۔ کیونکہ پولیس، سیاستدان، پریس، اور پروفیسر، اس جہادی طرز کے حملوں کی وجہ سے تذبذب کا شکار تھے جس کی وہ عوامی سطح پر تشہیر نہیں کرنا چاہتے تھے، پس اسلام مخالف جذبات کا اضافہ کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ ( افسوس کی بات ہے ، وہ لوگ جو دفاع کی ڈیوٹی پر مامور ہیں وہ بھی اکثر سچ کو چھپا لیتے ہیں) اگر اعلی سطح پر تشدد نقصان دہ ہے، تو کیوں اسلام پسند غصّے سے بے حال اور تشدد کی نوعیت کی وجہ سے خود کو اس شکست دینے والے رویے میں برقرار رکھتے ہیں؟
یوسف ابراہیم نے نیو جرسی میں دو مصّری عیسائیوں کا سرقلم کر دیا – اور شائد مشکل سے ہی کسی نے اس بات کا نوٹس لیا ۔ |
غصّہ : خاص طور پر ، اسلام پسند بہت انتہا پسند ہوتے ہیں، تلخ جذبات کا کھل کو اظہار کرتے ہیں ، بائل، نفرت، اور دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ مشرق وسطی کے زمانے کا جشن مناتے ہیں ، جب مسلمان بہت زیادہ امیر، سب سے زیادہ جدید، اور لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ طاقتور تھے اور مغربی مکاری دھوکہ بازی کو مسلمانوں کی شکست کی واضح وجہ ٹھراتے ہیں۔ صلیبیوں اور صہنیوں کی سازش پر مسلمان اپنے دوبارہ متقی طریقے کار میں واپس آکر اپنے لیے عزت اور اقتدار کی مناسب جگہ کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں، غصّہ کا اظہار کرنا خود سے ہی اپنے آپ میں ختم ہو جاتا ہے، اس کے نتیجے میں مائیوپیا کی بیماری ہو سکتی ہے، ایک منصوبہ بندی کرنے میں ناکامی، سٹرٹیجک سوچ کی عدم موجودگی، اور بڑی بڑی چال بازیاں۔
ایک پر تشدد نوعیت: ان کی سوچ کے مطابق خدا کی مرضی کا براہ راست علم ہونے پر بہت خوش ہونا، اسلام پسند تشدد کی حمایت کرتے ہیں۔ دشمن کو ایسا بنا دیتے ہیں کہ وہ خوف سے ان کے آگے سر جھکائیں، تب اس کو مار ڈالو یہ ہی اسلام پسندوں کا حتمی جواب ہے، اس شدید بیمارزدہ خواہش کی تکمیل ، دیگر مذاہب پر اسلام کی برتری کی جیت اور وہ مسلمان جن میں ایمان کی حرارت کی کمی ہے۔ خود کش بم دھماکے، سر قلم کرنا، جرائم پیشہ عناصر کے طرز قتل، اور مضحکہ خیز الزام تراشی کے دیگر اقدامات، ان کے انتقام کی شدید خواہش کا اظہار کرتی ہے۔
تب، طویل مدت تک تشدد کی یہ کاروائیاں اسلامی نظریے کو شدید نقصان پہنچائیں گی ۔ اگر ارد گرد نظر دوڑائی جائے،تو صرف 2013 ء میں ، تشدد کاروائیوں کے 2،800 حملوں میں 10،000 افراد کی اموات ہوئیں – یہ سب جانیں بے کار ضائع نہیں ہوئیں بلکہ نادانستہ طور پر انھوں نے ایک ہولناک خواہشات کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ جیسے کہ وہ فرانسیسی کارٹونسٹ کے خلاف تھے، اس کی وجہ سے رائے عامہ پر بے پناہ اثر پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ، عیش پرستی اور اسٹرٹیجک نامناسبت اسلام پسند کی اہم خصوصیات ہیں۔ اس کی نامناسب حکمت عملی کی مماثلت کی وجہ سے اسلام پسند پروگرام کی تباہی ہوئی۔ اور اس سے ، میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اس کی قسمت میں بھی ایسا ہی ہو گا جیسے کہ تاریخ میں مٹی کا ایک دھول، جیسا کہ کبھی فاشزم اور کیمیونزم موجود ہوتے تھے۔ یہ اپنی حتمی شکست سے پہلے خوفناک تباہی اور ہزاروں اموات کا وعدہ کرتے ہیں ۔ جنگ طویل اور دردناک ہو گی لیکن آخر میں، دوبارہ، تہذیب کی قوتیں اس عہد بربریت پر غالب آجائیں گی۔
اسلام کے نام پر یہ جو دہشت گردی کا ڈھول پیٹا جا رہا اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسلام پسند نظریے کو اس سے مدد ملے گی ۔ درحقیقت یہ اس کے ایجنڈئے کو اس کے بالکل درست خاتمے کے قریب لے آئے گی۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔