شام کی سفارت کاری سے متعلق کسی بھی قسم کے مسلسل واقعات جیسے کہ مدہوش ہو جانا اور منحرف ہونے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ، جو کہ 21 اگست بروز بدھ کو شروع ہوئے اور ساڑھے تین ہفتوں بعد ان کا خاتمہ 14 ستمبر بروز ہفتے کو ہوا ۔ کون جیتے گا کون ہارئے گا ؟ ایک حتمی جواب کے لیے یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا، لیکن بشر الاسد ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔وہ یہ ظاہر کرتے ہے کہ ،پٹ ان ، اور ملاء جیتیں گے۔ جب کہ اوبامہ ، ایرڈوگان اور اسرائیل کو شکست حاصل ہو گی۔
ایک خوش جوڑا: امریکی سیکرٹری جان کیری اور روس کا وزیر خارجہ سیرگی لیورو ایک معاہدئے کے پاس ہونے پر خوشی منا رہے ہیں۔ |
شروع کرنے سے پہلے ،حالیہ واقعات کا ایک خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔
21 اگست: دمشق کے قریب گہوٹا کے شہریوں کے خلاف ایک کیمیائی حملہ، جو کہ شائد شام کی اسد حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا۔
28 اگست : اوبامہ نے اسد حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کیمیائی حملے کے خلاف طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اسے سزا دینے کا ارادہ کیا ۔
31 اگست: اوبامہ خود پیچھے ہٹ گئے اور طاقت کے استعمال کے لیے کانگرس سے اجازت طلب کی ، کچھ ایسا تھا جو وہ خود کرنا نہیں چاہتے تھے۔
اگلے ہفتوں کے دوران، ایک غیر متوقع پیش رفت ،مقبول کانگرس اپوزیشن نے اس نقطہ نظر پر ہڑتال کی کہ اوبامہ کو وہ اجازت نامہ حاصل نہیں ہو گا جس کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔
9 ستمبر: ریاست کے سیکرٹری جان کیری نے ایک " ناقابل یقین جھوٹے" حملے کا وعدہ کیا اور اکیلے یہ تبصرہ کیا کہ شام کے کمیکلز کے لیے بین الاقومی کنٹرول حملے کی ضرورت کو مسترد کیا جا سکتا ہے ۔
10 ستمبر: اوبامہ نے شامی حکومت پر حملہ کرنے کی دھمکی کو منسوخ کر دیا اور کانگرس سے اپنی درخواست واپس لے لی ۔
14 ستمبر: امریکی اور روسی حکومت نے " شامی کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے بنائے جانے والے فریم ورک
پر دستخط لیے" اس بات کی " یقین دہانی دلوائی کہ شامی کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام ( سی- ڈبلیو ) کو فوری اور محفوظ ترین طریقے سے ختم کیا جائے گا۔"
کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے، 1997 ء میں قائم کی گئی تنظیم کا لوگو۔ |
چلیں اس ڈرامے میں دو اہم ادکارؤں کے درپیش انتخاب کا اندازہ لگاتے ہیں۔
بشرالاسد :فریم ورک انھیں اہم فیصلے لینے کی اجازت دیتا ہے جو کہ کام کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے ، جو اس کے سرپرستوں (ماسکو اور تہران) اور اس کے مشیروں (اسد قبیلہ) پر اثرانداز ہونے کے ذمےدار ہیں۔ ان کے پاس دو راستے ہیں، امریکہ – روس فریم ورک کی تعمیل کریں یا نہ کریں اور تنظیموں سے کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کا مطالبہ کریں جو کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدئے کو باقاعدہ کرئے گی شام نے اس میں شمولیت کا وعدہ کیا ہے ۔ حکمت عملی کے لحاظ سے ایک نااہل رہنماء، اس کے کاموں کی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں اس سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ یہ حکم قبول نہیں کرئے گا کیونکہ:(1) اس کو اپنی حکومت کے تحفط کے لیے ان ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ (2) شام میں جاری خانہ جنگی او- پی- سی- ڈبلیو کو ناکام بنانے کی سہولت فراہم کرتا ہے (3) اوبامہ کے ریکارڈ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ جوابی کاروائی میں حملہ نہیں کرئے گا۔ (4) صدام حسین نے ایک زبردست مثال قائم کی، جب کہ عراقی "بلی چوہے" کا کھیل سست ہے اور 1990 ء میں بڑئے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے ایک جیسی تدبیری رکاوٹ ڈالے گی۔
روزئے اور نماز کے عالمی دن پر پوپ فرانسیس کو شام کی طرف سے بلایا گیا۔ |
براک اوبامہ: اگست 2012 ء کے خطرئے کی "ریڈ لائن " کی وجہ سے پہلے سے ہی ایک طرف ہے۔ امریکہ – روس کا معاہدہ دو رخا ہے یا کوئی حکمت عملی نہیں رکھتا جو کہ امریکی صدر کو اس کے شامی ہم منصب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اگر اسد حکم کی تعمیل کرئے گا، تو اوبامہ بغیر کسی نقصان کے شام کو کیمیائی ہتھیاروں سے نجات دلوانے کے لیے ایک اصلی غیر ملکی پالیسی اختیار کرئے گا۔ لیکن اگر اسد حکم کی تعمیل نہیں کرئے گا ، تو اس سے کہیں زیادہ ہونے کے امکانات ہیں، اوبامہ اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت پر حملہ کرئے گا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ اس کے سیاسی نظریات کی سپورٹ کرنے والے افراد اور کانگرس کی رائے، اقوام متحدہ ،پوپ، رحمتہ اللہ کی خواہشات کے برعکس جائے اور یہاں تک کہ یہ شام میں جہادیوں کو مضبوط کرئے گا اور امریکہ کو ایک ناپسندیدہ طویل مدتی فوجی کاروائی میں الجھائے رکھے گا۔ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اوبامہ اپنی یا اسد حکومت کی شہرت کو ایک حقیقی نقصان پہنچائے بغیر حملہ کرئے گا۔
مختصر یہ کہ، میں اس بات کی پیشن گوئی کرتا ہوں کہ اسد حکم کی تعمیل نہیں کرئے گا اور اوبامہ امتیازی طور پر حملہ کرئے گا۔اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے، یہ اہم کرداروں کے لیے ایک مطلب رکھتا ہے۔
- بشرالاسد : وہ ایک امریکی حملے میں سے بچ نکلنے پر خوشی سے نعرئے لگاتا ہے اور اس پر قائم ودائم ہے ۔
- براک اوبامہ: خاص طور پر 2017 ء تک ایرانی نیوکلئیر اضافے کے ساتھ مقابلہ کرنے پر اس کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
- والڈرمئیر پٹ ان : اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسد حکم کی تعمیل کرئے یا نہ کرئے ،چاہے اوبامہ حملہ کرئے یا نہ کرئے، روسی صدر کو شکست نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ نوبل امن انعام کے اہل بن گئے۔ وہ ایک بڑئے فاتح ہیں۔
- ایران : تہران کے فوائد، کے بارئے میں یہ پر اعتماد ہے کہ اس کا جوہری بنیادی ڈھانچہ امریکی حملے سے محفوظ ہے، یہاں تک کہ اوبامہ اسد حکومت کے ٹکڑئے ٹکڑئے کر دئے۔
- ریسپ طیب ایردوگان: اس کے الٹ: ترکی کا صدر، بین الاقوامی جنگ کی پارٹی کا رہنماء، اسے شکست ہو گی ، جہاں تک کہ اوبامہ سنجیدگی سے اسد حکومت پر حملہ کرئے گا۔
- اسرائیل: اوبامہ کے ساتھ، اگر اسد حکومت پر پابندی لگائی جائے گی تو اسرائیل کو فائدہ حاصل ہو گا۔ لیکن اس کو شکست ہو گی اگر اسد حکومت پر پابندی نہیں لگائی جائے گی، جیسے کہ وہ ہے۔
ہم اس کو دو سنگین نتائج سے ختم کرتے ہیں: امریکی – روسی معاہدہ بحران کو حل نہیں کرئے گا، بلکہ اس معاملے میں زیادہ تاخیر اور اس کو مزید شدید کرئے گا۔ اوبامہ کا تقریبا ایک سال پہلے کا لاپرواہ " ریڈ لائن" بیان ایک غیر واضح غلطی تھی جو اس کی عظیم خارجہ پالیسی کی ناکامی کو بہت تیز کر سکتا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔