اسرائیل پر ہونے والی سڑی ہوئی اہم ترین شدید عرب جنگ، پر میں نے طویل عرصے سے اس پر دلائل دئیے، یروشلم پر ہونے والے تنازعات ، چیک پوائنٹس یا " یہودی بستیوں " کے بارئے میں جھوٹ نہیں کہا گیا۔ بلکہ ،یہ نام نہاد فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق ہے۔
نام نہاد اس لیے کیونکہ تقریبا 5 ملین سرکاری پناہ گزین اینراء کی طرف سے خدمات حاصل کر رہے ہیں ( یہ قریبی مشرق میں " اقوام متحدہ ریلیف اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ورک ایجنسی" کی ایک مختصر علامت ہے )، ان میں سے صرف ایک فیصد حقیقی مہاجرین ہیں جو کہ ایجنسی کی تعریف کے مطابق فٹ بیٹھتے ہیں کہ یہ " وہ لوگ ہیں جن کی جون 1946 ء اور مئی 1948 ء کے دوران رہائش گاہ کی عام جگہ فلسطین تھی ، جنھوں نے 1948 ء کے عرب – اسرائیل کے تنازعے کے نتیجے میں اپنے گھروں اور ذریعہ معاش دونوں کو کھو دیا ۔" دیگر 99 ٪ ان مہاجرین کی اولاد میں سے ہیں ، یا جنھیں میں جعلی مہاجرین کہہ کر پکاروں گا۔
بڑی ڈھٹائی سے اینراء نے 2009 ء میں اپنی ساٹھویں سالگرہ کا جشن منایا، جیسے کہ یہ کچھ ایسی بات تھی جس پر فخر کیا جائے۔ |
بدتر حالت : وہ پناہ گزین جو کہ 1948 ء میں زندہ تھے وہ اب تک مر چکے ہیں اور ان پچاس سالوں میں تقریبا ایک بھی حقیقی مہاجر زندہ نہیں بچا ہو گا ،جبکہ ( مائیک ڈیمپر کی طرف سے ریفیوجی سروئے کوارٹرلی کےایک ایکسٹرا پلاٹ کیے گئےاندازئے کے مطابق) ان کے جعلی پناہ گزینوں کی اولاد کی تعداد 20 ملین ہو چکی ہے، اس کو چیک نہیں کیا گیا، کہ یہ آبادی آخری وقت تک ٹوپسی کی طرح بڑھے گی۔
اس سے فرق پڑتا ہے کیونکہ پناہ گزینوں کا مقام ایک نقصان دہ اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ لاکھوں غیر مہاجرین کو ان کا ووٹ دینے کے حق سے محروم کر کے ان کی زندگیوں کو شدید متاثر کرتا ہے جبکہ ان پر ایک بد صورت ، غیر حقیقی ملک کی بحالی کے خواب کو نافذ کرتا ہے: بدتر؛ مہاجر حثیت مستقل طور پر انھیں اسرائیل کے دل پر خنجر چلانے کا ارادہ رکھنے والے، یہودی ریاست کو دھمکی دینے والے اور مشرق وسطی میں خلل ڈالنے والوں کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
عرب – اسرائیل کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے ، مختصر طور پر، جعلی فلسطینی مہاجرین کی تعداد میں اضافے کے ناموزوں اور نقصان دہ تماشے کو ختم کرنے اور مستقل طور پر انھیں بستیاں دینے کی ضرورت ہے۔ 1948 ء میں ایسا ہوا : تب یہ مقصد حاصل کرنے کا حقیقی وقت تھا۔
( ایلی نوائے کے ریپبلیکن ) مارک کرک اینراء میں طویل ضروری تبدیلیاں لانے والی پس پشت طاقت۔ |
میں یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں ، جو کہ ضروری طور پر مڈل ایسٹ فورم کے سٹیون – جے روژن اور میرئے گذشتہ سالوں کے دوران کیے جانے والے کام کی بنیاد پر ہے، 24 مئی کو امریکی سینٹ کی تحصیصات کمیٹی نے متفقہ طور پر محدود لیکن ممکنہ مالی 2013 ء وزارت خارجہ اور غیر ملکی آپریشنز بل کے 52.1 بلین ڈالر کی تاریخی ترمیم کو منطور کیا۔
مجوزہ ترمیم مارک کرک کی طرف سے پیش کی گی (جو کہ ایلی نوائے کے ریپبلیکن ) کہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو سالانہ 240 ملین ڈالر کے استعمال کے متعلق کانگرس کو مطلع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا براہ راست امریکی ٹیکس اداء کرنے والوں کی طرف سے اینراء کے ذریعے فلسطینی مہاجرین کو عطیہ دیا جاتا ہے، کرک پوچھتا ہے کہ کتنے وصول کنندہ ہیں، مذکورہ بالا اینراء کے مطابق پورا اترتا ہے، انھیں حقیقی مہاجرین بتایا جاتا ہے بلکہ ان مہاجرین کی نسل میں سے ہیں؟
کرک کی ترمیم جعلی مہاجرین کے لیے ختم کرنے یا یہاں تک کہ ان کے فوائد کو کم کرنے کا بھی مطالبہ نہیں کرتا۔ اس کی محدود نوعیت کے باوجود کرک " واٹر شیڈ " ریپورٹینگ کی ضروریات کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی بجائے یہ اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ سینئر سینٹ جی- او- پی معاون، اردنی حکومت کی طرف سے اور اینراء بذات خود اسے " بڑی اپوزیشن " کہہ کر پکارتے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین کے جوش روگن اسے منظرعام پر لاتے ہوئے ایک بھڑکتی ہوئی جنگ کہتے ہیں۔
غصّہ کیوں؟ کیونکہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو حقیقی مہاجروں میں سے جعلی پناہ گزینوں کا فرق کرنے کے لیے مجبور کیاگیا تھا، امریکی اور دیگر مغربی حکومتیں ( جو کہ اکھٹی مل کر اینراء کے 80٪ بجٹ کو پورا کرتیں ہیں ) بلاآخر جعلی پناہ گزینوں سے قطع تعلق کرنے کے لیے فیصلہ کر سکتے ہیں اور ان کے اسرائیل کے لیے " واپسی کے حق " کے دعوی کو کمزور کر سکتے ہیں۔
سٹیٹ کا ڈپٹی سیکرٹری ، تھامس- آر- نائیڈس ، جو کہ اینراء کے غیرفعال نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ |
بڑئے افسوس کی بات ہے کہ، اوبامہ کی انتطامیہ نے بہت برئے طریقےسے اس مسئلے پر ناکام کوشش کی ہے۔ سٹیٹ کے ڈپٹی سیکرٹری ، تھامس- آر- نائیڈس کی طرف سے ایک خط نے کرک کے ابتدائی ورژن کی مخالفت کی جو کہ مکمل طور پر اس سےغیر موافقت ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف نائیڈس بیان کرتا ہے کہ کرک، امریکی حکومت کومجبور کر کے " فلسطینی مہابرین کی حثیت اور تعداد پر عوامی فیصلہ لے گا۔۔۔۔۔۔۔ اندازہ لگائے گا اور اس حساس مسئلے کا تعین کرئے گا۔" دوسری طرف، نائیڈس بذات خود " تقریبا 5 ملین [ فلسطینی ] مہاجرین " کا حوالہ دیتا ہے، اس لیے اصلی اور جعلی مہاجرین کا ہجوم اکھٹا کیا ہوا ہے – اور بالکل اسی مسئلے کا دوبارہ اندازہ لگاتا ہے جس پر اصرار کرتے ہوئے اس کے لیے راستہ کھلا رکھتا ہے۔ وہ 5 ملین مہاجرین والا بیان کوئی اتفاقی بات نہیں ہے؛ جب اس کے بارئے میں بیان کیا جاتا ہے،کہ محکمہ خارجہ کے ترجمان پیٹرک وینٹرل اس بات کی؛ تصدیق کرتے ہیں کہ " امریکی حکومت کے حمایتی " "مہاجرین کی اولاد کو مہاجرین کے طور پر پہچاننے کے لیے" رہنمائی کرنے والے پرنسپل ہیں۔
یہ فلسطین اور خطے میں ہمارئے اتحادیوں کی طرف سے،خاص طور پر اردن کی طرف سے [ ترمیم کے لیے ] بھر پور منفی ردعمل کی پیشنگوئی ہے، نائیڈس نے امریکی سینٹ پر دباؤ ڈالنےکے لیے عربوں کو دعوت دی،ایک ناقص ماہرانہ انتظام جو کہ محکمہ خارجہ کے قابل نہیں۔
اسرائیل کے 64 – سالہ قیام کے تمام ذریعوں کی طرف سے ، ایک کے بعد ایک امریکی صدر عرب – اسرائیل تنازعے کو حل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا تھا، تاہم ان میں سے ہر ایک نے اس تصادم کے بدصورت پہلو کو نظر انداز کرنے کے لیے – یہودی ریاست کے وجود کو چیلنج کرنے کے لیے مہاجرین مسئلے کا ایک بامقصد استحصال کیا۔ سنیٹر کرک اور اس کے عملے کو ناخوشگوار حقائق کو حل کرنے کے لیے، ان کی جرآت اور حکمت عملی پر شاباش دی جاتی ہے، تبدیلی کی شروعات کرنا جو کہ آخرکار اس تنازعے کے اہم حصّے تک پہنچ جائے گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔