براک اوبامہ کا سابق سفیر جیمز جیفری جو کہ عراق پر غیر معمولی اور کامل اختیار رکھتا تھا، وہ مشرق وسطی میں انتظامیہ کے حالیہ ریکارڈ کے بارئے مں کہتا ہے کہ : " ہم تنزلی کا شکار ہو چکے ہیں۔"
غلطیوں کو گنیں: لیبیا میں حکومت کا تختہ الٹانے میں معمر قذافی کی مدد کرنا، جس کے نتیجے میں طوائف الملوکی اور خانہ جنگی ہوئی۔ مصّر کے حسنی مبارک پر دباؤ ڈالنا کہ وہ استعفی دئے دیں ، تب اخوانالمسلمون کی پشت پناہی کی گئی، اب صدر سس کی قیادت میں ماسکو کی طرف رخ موڑ لیا گیا ۔ اسرائیل کی حکومت جو کہ واشنگٹن کا سب سے کو ISISبڑا اتحادی رہنماء ہے ، کو خطے میں تنہاء چھوڑ دینا ۔ اس کے بڑئے شہروں پر قبضہ کرنے سے بالکل پہلے
ایک " جوئنیر جامعہ" کے طور پر مسترد کر دینا ۔ یمن کی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے انسداد دہشت گردی کی کامیابی پر اسے سراہنا۔ سعودی حکام کو اس حد تک تشویش ناک کر دینا کہ وہ مل کر ایران کے خلاف فوجی اتحاد کریں۔ ترکی کے صدر ریسیپ طیب ایردوگان کے ساتھ لاڈ پیار کرنا ، اس کی آمرانہ صیلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ۔ عراق اور افغانستان کو مکمل طور پر چھوڑ دینا ، ان دونوں ممالک میں امریکہ کے وسیع تر سرمائے کا بے جا استعمال کر کے تباہ کرنا ۔
اور سب سے زیادہ : ایران کے جوہری طور پر – پرعزم ملاؤں کے ساتھ خطرناک ناقص معاہدہ کرنا۔
لیبیا کا قذافی ، اوبامہ کی کامیاب سٹوری۔ |
کیا یہ ایک نااہل قیادت کی طرف سے کی جانے والی غلطیوں کا ایک سلسلہ ہے یا اس سے بھی کہیں بہت زیادہ ، اگر اس کو غلط سمجھا جائے ، تو اس طریقہ کار کے پیچھے کوئی تصور موجود ہے ؟ ایک حد تک یہ ایک نامناسب بات ہے ،جب اوبامہ نے سعودی بادشاہ کی بات پر سر تسلیم خم کیا ، اپنا ارادہ بدلنے سے پہلے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شامی حکومت کو دھمکی دی، اور اب عراق میں تہران کی مدد کرنے کے لیے امریکی فوجی بھیجے اور وہ یمن میں مقابلہ کریں۔
لیکن وہاں بھی ایک بہت بڑا ارادہ موجود ہے اور جو اس کی وضاحت مانگتا ہے ۔ بائیں طرف کا آدمی ہونے کے ناطے اوبامہ نے تاریخی طور پر امریکہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ باہر کی دنیا پر بہت ضرررساں اثرات مرتب کرتا ہے۔ لالچی کارپوریشنز، ایک حد سے زیادہ فوجی صنعتی کمپلکس ، ایک یاہو قوم پرستی ، نسل پرستی پر یقین ، اور ثقافتی سامراجیت ، مل کر امریکہ کو برائی کے لیے ایک قوت بنانے کے لیے ایک توازن فراہم کرتے ہیں۔
، ایک کیمیونٹی آرگنائزر کا طالب علم ہونے کے ناطے ، اوبامہ نے کھلے الفاظ میں اس نقطہ نظر کا Saul Alinsky دعوی نہیں کیا لیکن خود کو الگ سے ایک محب وصن کے طور پر پیش کرتا ہے، اس کے ذریعے وہ ( اور اس کی دلکش بیوی ) " ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بنیادی طور پر تبدیلی " کے متعلق کبھی کبھی اشاروں کناؤں میں اپنے بنیاد پرست نظریات کو پیش کرتے ہیں ۔ ایوان صدر میں تخت نشین ہونے کے ناطے ، اوبامہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے خطرئے کی گھنٹی بجانے میں کوئی فعال کردار اداء نہیں کر رہے اور پھر سے منتخیب ہونا چاہتے ہیں ۔ تاہم، اب تک، چھ مکمل سالوں کے بعد اور صرف اس کی میراث اس بارئے میں فکرمند ہیں ، کہ مکمل طور پر تیار اوبامہ اب ابھر کرسامنے آ رہا ہے۔
، جو کہ ایک کیمیونٹی آرگنائزر ہونے کے ناطے مساوی برتری رکھتا ہے ( اور جو اس مضمون کا Saul Alinsky مصنف ہے جس سے 1965 ء میں ملاقات ہوئی۔ ) |
اوبامہ کا اصول سادہ اور آفاقی نوعیت کا ہے: مخالفین کے ساتھ گرما گرم تعلقات اور دوستوں کو تازہ دم کرنے والا ۔
یہ نقطہ نظر بہت سے مفروضات کی بنیاد ڈالتا ہے: امریکی حکومت کو اخلاقی طور پر اس کی سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنی چاہیے ۔ دشمن ریاستوں پر مسکرانا انھیں جوابی ردعمل کرنے میں حوصلہ افزائی دیتا ہے۔ طاقت کا استعمال زیادہ مسائل کو پیدا کرتا ہے بانسبت انھیں حل کرنے کے۔ تاریخی امریکی اتحادی ، شراکت دار، مدد گار اخلاقی طور پر کم تراہمیت رکھتے ہیں ۔ مشرق وسطی میں اس کا مطلب ہے کہ ترمیم پسندی تک رسائی حاصل کرنا ( مصّر، اخوان المسلمون، اسلامی جمہوریہ ایران ) اور تعاون پر مبنی حکومتوں کو خود سے دور دھکیل دینا ( مصّر، اسرائیل، سعودی عربیہ )۔
ان دو اداکاروں میں سے ، دو بہت زیادہ نمایاں ہیں : ایران اور اسرائیل ۔ تہران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے اوبامہ کی عظیم ترین سوچ کے مطابق ہوگے۔ ہڈسن انسیٹیوٹ کے مائیکل ڈرون یہ بتاتا ہے کہ، اوبامہ نے اپنی پوری صدارت کے دوران ایران کا حوالہ پیش کرنے میں کام کیا جس کو وہ " ایک بہت کامیاب علاقائی طاقت کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو کہ بین الاقوامی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کے ذریعے غیر متزلزل ہے۔" اس کے برعکس اس کے سابق صدارتی دوستی سنگدل مخالف صہونیوں کے ساتھ جیسے کہ علی ابونیہماء ، راشد خلیدی اور ایڈورڈ اس کی یہودی ریاست کی طرف دشمنی کی شدت کے نقطے کو بیان کرتے ہیں ۔
اوبامہ کا اصول سمجھنے میں آسان ہے جبکہ دوسری صورت میں یہ پر اسرار ہے۔ مثال کے طور پر یہ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں امریکی حکومت نے خوشی خوشی ایرانی سپریم لیڈر جو کہ مارچ میں کتے کی طرح بھونک رہا تھا کہ " امریکہ مردہ باد " کی اشتعال انگیزی کو نظرانداز کیا، اس کو محض ایک گھریلو دلالی کے طور پر مسترد کر دیا گیا
، یہاں تک کہ اوبامہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے نزدیکی بیک وقت ہونے والی انتخابی مہم کے تبصرئے پر افسردگی کا اظہار کیا جب کہ اپنی حکومتی مدت کے دوران فلسطین کے ساتھ دو - ریاستی حل کو مسترد کر دیا ( " ہم اس کی ان الفاظ پر گرفت کریں گے ")۔
ایران کے سپریم لیڈر خمیانی اس سے زیادہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور اوبامہ کو برا نہیں لگے گا۔ |
یہ اصول اوبامہ کی باقی دورحکومت کی مدت کے دوران ہونے والے ممکنہ واقعات کی پیشن گوئی کرنے کے لیے جیسا آفت زدہ معاہدہ جس نے اسرائیل کی حکومت کو ایرانی P5+1ہدایات پیش کرتا ہے ، جیسے کہ ایران کے ساتھ
جوہری تنصیات پر حملہ کرنے پر مجبور کیا ۔ دمشق کی طرف پالیسیوں میں نرمی نے اسد حکومت کی طاقت کی دوبارہ پروان چڑھنے کا راستہ صاف کر دیا ۔ انقرہ نے مشرقی بحیرہ روم میں قبرص میں موجود گیس اور تیل کے ذخائر کے بجران میں اشتعال انگیزی پیدا کرنے کے راستے کو اپنایا۔
آگے بڑا سوال یہ ہے کہ ، کس طرح ہ یہ سمجھیں گے، امریکی عوام اوبامہ کے اصول کی عدالت کریں گے جب وہ انیسویں ماہ میں صدارت کے لیے اگلا ووٹ دیں گے۔ کیا وہ اپنے تبدیل ہونے اور شرمندہ کرنے والی پالیسی سے انکار کریں گے، جیسا کہ انھوں مقابلتا 1980 ء میں کیا ، جب انھوں نے جیمی کارٹر کی بجائے رونلڈ ریگن کو منتخیب کیا ؟ یا پھر وہ اسے مزید اگلے چار سالوں کے لیے منتخیب کریں گے، اس لیے اوبامہ کے نظریے کو نئے طریقے سے اور امریکیوں کو یورپی – طرز کے متاسف میسوکسٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟
ممکنہ طور پر 2016 ء میں ان کے فیصلے کے عالمی- تاریخی اثرات مرتب ہونگے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔