مشرق وسطی نے دو روز قبل انقلابی طور پر کچھ نیاء کام کرنے کا مشاہدہ کیا ، جب کہ یمن کے صدر کی طرف سے کی جانے والی اپیل پر مملکت سعودی عربیہ نے ایک رد عمل کا اظہار کیا ، اور ملک میں فضائی اور زمینی مداخلت کرنے کے نتیجے میں دس – ممالک کی فوج نے اتحاد کیا۔ " آپریشن میں فیصلہ کن ہنگامی صورت حال " جو کہ کئی مظاہر کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
سعودیہ اور مصر کا آپس میں اتحاد : نصف صدی پہلے ، ریاض اور قاہرہ یمن کے خلاف جنگ میں سرگرم تھے ، لیکن پھر مخالف اطراف، بالترتیب بلند حثیت جمود فورسز اور انقلابیوں کی طرف سے ان کی حمایت کی گئی ۔ اب ان کے اتحادی ہونے کے ناطے اس بات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ مصّر میں ہونے والی شدید تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اسے سعودی عربیہ میں بھی جاری رکھا جائے۔
عربی بولنے والے اپنی کاروائی ایک دوسرئے کے ساتھ مل کے کررہے ہیں:اسرائیل کی ابتدائی دہائیوں سے ہی ،عربوں نے اس کے خلاف متحد ہو کر فوجی کاروائی کا خواب دیکھا تھا لیکن اندرونی لڑائیوں اور دشمنیوں کے حقائق نے ایسی ہر امید کو توڑ دیا۔ یہاں تک کہ تین مواقعوں پر ( 1948-49 ، 1967 ، 1973 ) میں جب انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی ، تب انھوں نے اسے متضاد مقاصد کے لیے غیر موئثر انداز میں کیا ۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ، تب
انھیں آخرکار اسرائیل کے خلاف نہیں بلکہ ایران کے خلاف جانا چاہیے ۔ یا مکمل طور پر ان کی اس سمجھ بوجھ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک حقیقی خطرہ ہے، جبکہ مخالف صہونیت محض ایک نفس پرستی کے مترداف ہے۔ یہ ایک ناگہانی افت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور امریکہ کی طرف سے مکمل طور پر پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
عرب رہنماؤں کے ملاقات کی ایک طویل تاریخ موجود ہے لیکن اس لحاظ سے تعاون نہیں کیا گیا۔ دائیں طرف موجود اردن کے شاہ حسین، مصّر کے جمال عبدالناصر، پی- ایل- او کے یاسر عرفات ، اور ستمبر 1970 ء میں لیبیا کے معمر قذافی۔ |
یمن توجہ کا مرکز ہے: یمن نے بائبل میں ، اسلام کے عروج میں، اور جدید دور میں ایک ذیلی کردار اداء کیا؛ یہ دنیا کی توجہ کا مرکز کبھی نہیں رہا – تاہم اچانک اب تک ۔ یمن کسی زمانے میں دوسرئے معمولی درجے کے ممالک سے مشابہ ہے جیسے کہ – کوریا، کیوبا، ویت نام، افغانستان، - جو کہ باہر کہیں سے عالمی تشویش کا مرکز بن گیا۔
مشرق وسطی کی سرد جنگ گرما گرم ہوتی چلی گئی: ایرانی اور سعودی حکومتیں تقریبا ایک دہائی سے ایک متحد محاذ آرائی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے جنگ، نظریات، جاسوسی، امداد، تجارت ، اور خفیہ کاروائی کے ذریعے جنگی مقابلہ کیا جیسے کہ کبھی امریکی اور سوویت حکومتوں نے کیا تھا۔ 26 مارچ کو یہ سرد جنگ گرما گرم ہوتی چلی گئی ،جہاں اس کا طویل عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
کیا سعوی زیر قیادت اتحادی جیت سکتے ہیں ؟ اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ تاہم یہ ایک ممنوع علاقے میں ایران کے جنگی کٹھور اتحادیوں کی تاریکیوں کو بڑھا رہے ہیں۔
اسلام پسندوں کا غلبہ ہے: دونوں بلاکوں کے رہنماء آپس میں بہت سی چیزیں مشترک رکھتے ہیں : دونوں اسلام کے مقدس قانون ( شریعت ) کو لاگو کرنے کے آفاقی خواہش مند ہیں ، دونوں کافروں کو حقیر جانتے ہیں ، دونوں عقیدئے کو نظریے میں تبدیل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لڑائی جھگڑوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ اسلام پسندی مشرق وسطی کا ایک واحد کھیل ہے ، جو کہ ایک دوسرئے سے لڑنے کے لیے اپنے حامیوں کو عیش و عشرت کی اجازت دیتا ہے ۔
ترکی – قطر کے اخوان المسلمون کے اتحاد میں کمی : سنی ترمیم پسند کا ایک تیسرا اتحادی جو کہ کہیں نہ کہیں سے شیعہ انقلابیوں اور سنی بلند ضمامن کے درمیان حالیہ برسوں کے دوران بہت سے ممالک جیسے کہ - عراق، شام، مصّر، اور لیبیا میں سرگرم رہا ہے ۔ لیکن اب جزوی طور پر اس سفارت کاری کا شکریہ جس کو سعودی عربیہ کے حالیہ نئے بادشاہ سلمان کی طرف سے شروع کیا گيا ، اس کے اراکین اپنے سنی ہم مذہبوں کی طرف کھینچے چلے جا رہے ہیں ۔
سعودی عربیہ کے بادشاہ سلمان نے فوجی اتحاد کی بنیاد ڈالنے میں کچھ ایسا کام کیا ہے جو کہ بے مثال ہے۔ |
تنہاء ایران : جی ہاں، ایک جنگی تہران جو کہ اب عرب کے چار دارالحکمتوں پر غالب آنے کی اہلیت رکھتا ہے ( بغداد، دمشق، بیروت، صنعاء) لیکن یہ بھی اس کے لیے ایک مسئلہ ہے ۔ اب ایرانی اس علاقے میں بہت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں ( جیسے کہ اس میں گذشتہ دوستانہ ریاستیں پاکستان اور سوڈان شامل ہیں ) جو کہ ایران سے خوف زدہ ہیں۔
عرب اسرائیل تنازعے کو ایک طرف کر دینا : اگر اوبامہ کی انتظامیہ اور یورپی رہنماء فلسطین پر مسلط رہتے ہیں ، انھیں ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خطے کے لیےبہت اہم ہیں، تو علاقائی کرداروں کے لیے اس سے کہیں زیادہ ضروری ترجیحات ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اسرائیل شائد ہی ان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ یہودی ریاست قیادت کے رہنماؤں کے لیے ایک خاموش معاون کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ کیا یہ تبدیلی اسرائیل کی جانب عرب رویوں میں طویل مدتی منتقلی کی نشان دہی کرتی ہے؟ شائد نہیں ؛ جب ایران کا بحران منظر عام سے ہٹ جائے گا، تو یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کی طرف دوبارہ غور کریں گئے، جیسے کہ وہ ہمیشہ کرتے ہیں۔
نے یہ توقع کی کہ عراق کو چھوڑ دینےnaïfsامریکی پالیسی بدنظمی کا شکار ہے: جب براک اوبامہ اور اس کے ساتھی
پر، تہران پر مہربانی کرنے سے ، اور عرب – اسرائیل مذاکرات کے لیے سخت کوشیش کرنے سے مشرقی ایشیاء کو ایک محور کی حثیت دینے سے خطے کو مضبوط بنا لیں گے، تب 2009 ء میں بجاء طور پر مشرق وسطی والوں نے انھیں تضحیک کا نشانہ بنایا ۔ اس کی بجائے امریکی حکومت کا چوٹی پر ناکافی ناجائز قبضہ ان پر اچانک تیزی سے رونماء ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے ساتھ مطابقت نہ رکھ پایا ، جن میں بہت سے اس کے اپنے پیداکردہ تھے جیسے کہ ( لیبیا میں افراتفری، روایتی حلیفوں کے ساتھ تناؤ، ایک بہت زیادہ جھگڑالو ایران )
ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے اثرات: تاہم واشنگٹن نے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کئی پوزیشنوں پر جوڑ توڑ کی اور ملاؤں کی حکومت کی بہت حمایت کی ( مثال کے طور پر اس اور اس کے حزب اللہ اتحادی کو دہشت گرد لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا ، اس نے یمن میں ایک لائن کھینچ دی ، ایران مخالف اتحادیوں کوکچھ حمایت کی پیش کش کی ۔ کیا ایران کے رہبر اعلی علی خیمانی اب باتوں کی تیز بوچھاڑ ختم کر دیں گے ؟ اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہے ، وہ معاہدہ جس کی انھیں پیش کش کی جارہی ہے وہ اتنا بہترین ہے کہ اسے سویٹ کیا جائے۔
تاہم ایک دوسرئے اختلاف پر امریکی سفارت کاروں نے اپنے ایرانی ہم منصبوں کی اطاعت قبول کرنے کے لیے ان سے دوبارہ ملاقات کی۔ |
مختصر یہ کہ ، سلمان کی ہنر مند ڈپلومیسی اور اس کی یمن میں فوج کے استعمال پر آمادگی عرب انتشار کے خطرناک امتزاج کا جواب دیتی ہے ، ایک طرح سے ایرانی جارحیت اور اوبامہ کی کمزوری خطے کو تشکیل دینے میں بہت وقت لگائے گی۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔