تجزیہ نگار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ " شامی حکومت کی صیلاحتیں تیزی سے ختم ہو رہیں ہیں،" جو کہ یک بعد دیگر پیسائی کی طرف جا رہی ہیں۔ ایک غیر معمولی باغی پیش رفت کو جنم دئے رہے ہیں اور اسلام پسند فتح کے امکان کو تیزی سے بڑھا رہیں ہیں۔ اس کے جواب میں، میں کچھ کرنے کے لیے اپنی سفارشی پالیسی غیر جانبداری سے تبدیل کر رہا ہوں جس نے مجھے ایک انسانی اور اسد خاندان کے لیے دہائیوں پر مشتمل – طویل دشمن بنا دیا، لکھنے سے پہلے تھوڑا سا توقف اختیار کرتے ہوئے:
مغربی حکومتوں کو بشرالاسد کی بدنام آمریت کی حمایت کرنی چاہیے۔
اس تذبذب شدہ تجویز کے لیے میری منطق یہ ہے کہ : بری طاقتیں جب آپس میں جنگ کرتی ہیں تو ہمارئے لیے کم خطرئے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ (1 ) مقامی طور پر انھیں مصروف رکھتی ہے اور یہ (2) کسی ایک کو بھی ایک فاتح کے طور پر ابھرنے سے باز رکھتی ہے ( اور اس کے تحت تاہم – ایک بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے )۔ مغربی حکومتوں کو دشمنوں کی جمود کے طریقے سے رہنمائی کرنی چاہیے اس گروپ کی مدد کرتے ہوئے جو کہ شکست کا شکار ہو رہا ہے، اس طرح ان کا تنازعہ طویل ہوتا جائے گا۔
یہ پالیسی بے مثال ہے۔ بہت حد تک جنگ عظیم دوئم کے ذریعے ، نازی جرمنی نے سویت روس کے خلاف جارحانہ کاروائی کی تھی اور جرمن فوجیوں کو مد نطر رکھتے ہوئے جرمن فوجی مشرقی محاذ پرمغلوب ہوئے جو کہ اتحادی فوجیوں کی فتح کے لیے نہایت اہم تھا۔ اس لیے فرینکلین ڈی روزویلٹ نے اپنی فوج فراہم کرکے اور فوجی جنگی کوششوں کو ہم آہنگ کر کے جوزف سٹالین کی مدد کی ۔ ماضی پر نظر ڈوڑاتے ہوئے ، یہ اخلاقی طور پر ناخوشگوار جبکہ حکمت عملی کے لحاظ سے ضروری اہم پالیسی کامیاب رہتی ہے اور سٹالین اسد کی نسبت ایک بہت بڑا اور بد ترین مونسٹر تھا۔
سٹالین، صدام حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بشرالاسد ۔ |
1980 – 88 ء کی عراق ایران جنگ میں کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی۔ 1980 ء کے وسط کے بعد جب ایت اللہ خیمانی کی فوج صدام حسین کی فوج کے خلاف کاروائی کر رہے تھے، تب مغربی حکومتوں نے عراق کی حمایت شروع کر دی ۔ جی ہاں، عراقی حکومت نے دشمنی شروع کردی تھی اور بہت زیادہ سفاکانہ تھی لیکن ایرانی نظریاتی لحاظ سے بہت زیادہ خطرناک تھے اور فوجی کاروائی کر رہے تھے۔ سب سے بہترین یہ تھا کہ دشمنی دونوں طرف منڈلا رہی تھی اور کسی ایک کو بھی فتح نصیب ہونے کی خوشی سے محروم رکھے ہوئے تھی ہنری کسنگر کی متشبہ تحریر کے تحت " یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ دونوں کو شکست نہیں ہو سکتی۔"
ریگن، ایف- ڈی- آر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اوبامہ ۔ |
اس جذبے کے تحت، میں امریکہ سے بحث کرتا ہوں کہ وہ ہارنے والی پارٹی کی مدد کریں، جو کہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، جیسے کہ اس مئی 1987 ء کے تجزیے کے مطابق : " 1980 ء میں جب عراق نے ایران کو دھمکی دی ، کم از کم جزوی طور پر ہمارئے مفادات ایران کے ساتھ تھے ۔ لیکن 1982 ء کے موسم گرما کے بعد سے عراق دفاع پر تھا، اور واشنگٹن اب مضبوطی سے ان کی سائیڈ سے تعلق رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔۔ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ، کیا عراق کو ایک بار پھر جارحانہ کاروائی کرنی چاہیے، اس کا امکان نہیں ہے لیکن ناممکن تبدیلی نہیں ہے ۔ امریکہ کو دوبارہ تبدیلی کرنی چاہیے اور ایران کی مدد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔"
اس ہی منطق کو شام پر لاگو کرتے ہوئے آج ہم قابل ذکر مماثلت پاتے ہیں ۔ اسد صدام حسین کے کردار پر پورا اترتا ہے – وحشیانہ بیتھیسٹ آمر جس نے تشدد شروع کیا – باغی افواج ایران سے مشابہت رکھتی ہیں – پہلا شکاری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظبوط تر ہوتا گیا اور اسلام پسند بڑھتے ہوئے خطرئے سے دوچار ہے۔ یہ لگاتار برائی ہمسائیہ ممالک کو خطرئے میں ڈال سکتی ہے۔ دونوں اطراف جنگی جرائم میں مصروف رہتے ہیں اور مغربی مفادات کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔
جی ہاں، اسد کی بقاء تہران کو فائدہ دئے گی، جو کہ خطے کی سب سے زیادہ خطرناک حکومت ہے۔ لیکن ایک باغی ، فتح اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے، کہ اس سے انتہائی تیزی سے ترک کی بدمعاش حکومت کو فروغ ملے گا جبکہ اتحادیوں کو بااختیار بنایا جائے گا اور اسد حکومت کو شورش زدہ اسلام پسند فاتحوں کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس لگاتار لڑائی سے ان کے اختیارات واپس لینے کی نسبت مغربی مفادات کو کم نقصان پہنچے گا، یہاں سنی اور شیعہ اسلام پسند کے اختلاط کی نسبت بدتر امکانات موجود ہیں، تب حماس کے جہادی حزب اللہ کے جہادیوں کو اور حزب اللہ کے جہادی حماس کے جہادیوں کو مار رہے ہیں۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ کوئی بھی سائیڈ جیت حاصل نہ کرئے۔
الیپو میں تباہی کا ایک منظر۔ |
اوبامہ کی انتظامیہ بیک وقت اچھے باغیوں کی خفیہ طور پر مہلک ہتھیاروں سے اور 114 ملین ڈالر کی امداد سے مدد کرنے کی ایک حد سے زیادہ حوصلہ مندانہ اور پراسرار پالیسی کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ برئے باغیوں پر ممکنہ طور سے ڈروان حملے کرنے کی بھی تیاریاں کر رہا ہے۔ اچھا خیال ہے، لیکن ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے باغی طاقتوں کے ساتھ سازش کرنا کامیابی کا بہت کم چانس رکھتا ہے۔ لامحالہ، امداد اسلام پسندوں کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور فضائی حملے اتحادیوں کو ختم کر دیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کسی ایک کی حدود کو تسلیم کر لیا جائے اور قابل عمل کام کرنے کی خواہش کرنی چاہیے جو کہ شکست کا شکار ہو رہی ہے۔
ایک ہی وقت میں ، مغربیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاقی طور پر درست ہو اور عام شہریوں کے خلاف جنگی اسلحوں کا خاتمہ کریں ، لاکھوں معصوم لوگ جو کہ بے گناہ اس خانہ جنگی کی ہولناکیوں میں مبتلا ہیں۔ مغربی حکومتوں کو جنگی قواعد کی پابندی کرواتے ہوئے مخالف پارٹیوں کو مجبور کرنے کا طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے، خاص طور پر وہ ہر جنگجو کو غیر جنگجوؤں سے الگ تھلگ سمجھتے ہیں۔ یہ باغیوں کو سپلائی کرنے والوں ( ترکی، سعودی عربیہ، قطر ) اور شامی حکومت کے حامیوں ( روس، چائنا ) پر دباؤ ڈال کر بنیادی تبدیلی کی توقع کر سکتا ہے، ان کی جنگی قواعد کی پاسداری کرنے کی صورت میں ان کی مدد کرئے، یہاں تک کہ دونوں اطراف سے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مغربی طاقت کے استعمال کو بھی شامل کر سکتا ہے۔ اس طرح حفاظت کی ذمہ داری کو پورا کرئے۔
ایک خوشی کے دن پر جب اسد اور تہران باہمی تھکاوٹ کے لیے باغیوں اور انقرہ سے لڑیں گے، تب شام میں مغربی حمایت غیر بیتھسیٹ اور غیر اسلام پسند عناصر کے حق میں جا سکتی ہے، جو کہ آج کے تباہ حال انتخاب کے متبادل ایک اعتدال پسند پیشکش کے ذریعے ان کی مدد کریں گے اور جس کے نتیجے میں ایک بہترین مستقبل حاصل ہو گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔