جب ایک اہم عرب ریاست نے بالاآخر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدئے پر دستخط کیے، تب ایک طویل عرصے سے یہ فرض کیا جا رہا تھا کہ ، عرب – اسرائیل تنازعہ اختتام پذیر ہو جائے گا۔ 1979 ء کے مصّر – اسرائیل امن معاہدئے، نےاس طرح کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ؛ اس نے دیگر ریاستوں کو تشکیل دینے کے لیے گمراہ کن اثرات مرتب کیے اور جس کے ساتھ ساتھ مصّری عوام بہت زیادہ صہونیت مخالف بھی ہے۔
1980 ء میں یہ بھی امید نطر آئی کہ، اس کی بجائے ، اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے سے یہ تنازعہ ختم ہو جائے گا۔ 1993 ء کے قوانین کے اعلامیہ کی مکمل طورپر ناکامی نے ( جس کو اوسلو معاہدہ بھی کہا جاتا ہے ) اس امید کو بھی دفن کر دیا۔
ایہود اولمرٹ ( دائیں طرف ) کامیابی کے بغیر ، یہ مطالبہ کرتا ہے، کہ محمود عباس اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔ |
اب آگے کیا ہے ؟ تقریبا 2007 ء کے شروع سے ہی ، اسرائیل کو ایک خود مختار یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے، ایک نئی حکمت عملی ابھر کے سامنے آئی ۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے اصطلاحات قائم کیں : "میں کسی بھی طرح یہودی ریاست کے ایشو پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یہ ہماری فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کے لیے ایک شرط ہو گی۔"
اولمرٹ اسرائیل کا ایک بد ترین وزیراعظم تھا لیکن اس نے ایک بات درست کی تھی۔ عرب – اسرائیل سفارت کاری نے ہزارہا ذیلی مسائل کے ساتھ معاملات طے کیے جبکے تنازعے کے اہم مسئلے کے اردگرد لڑکھڑاتے رہے : اس کی اسرائیل کی سرحدوں کے اوپر، اس کی اپنی دفاع پر مشقیں، اس کا ٹیمپل ماؤنٹ پر کنٹرول، اس کی پانی کی کھپت، مغربی کناروں پر موجود شہروں میں اس کی گھروں کی تعمیر، مصّر کے ساتھ سفارتی تعلقات، یا فلسطینی ریاست کا وجود جیسےاہم مسائل کی بجائے – اس جواب پر اختلاف رائے کہ کیا یہاں ایک یہودی ریاست ہونی چاہیے۔"
غم و غصّے کی چھنگاڑ کے ساتھ، یہ اعلان کرتے ہوئے ، فلسطینی رہنماؤں نے جواب دیا کہ وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے سے " مکمل طور پر انکار کرتے ہیں "۔ یہاں تک کہ انھوں نے چونکتے ہوئے ڈرامے بازی کی کہ ریاست کے تصور کی وضاحت مذہب کی طرف سے کی جائے گی، اگرچہ ان کے اپنے " فلسطین کی ریاست کے ائین "، کا تیسرا مسودہ ، جس میں یہ لکھا ہے کہ " فلسطین کی سرکاری زبان عربی اور مذہب اسلام ہے۔" اولمرٹ کی کوشیش کوئی رنگ نہیں لائیں۔
2009 ء کے اؤائل میں وزیر وزارت سنبھالنے پر بنیامین نیتن یاہو نے اپنی سفارت کاری میں اولمرٹ کے نقطہ نظر کو دہرایا۔ بڑئے افسوس کی بات ہےکہ، اوبامہ کی انتظامیہ نے فلسطین کی پوزیشن کی توثیق کر دی، اسرائیلی مطالبے کو دوبارہ ایک طرف کر دیا گیا ۔ ( اس کی بجائے، اس نے یروشلم میں یہودیوں کے لیے رہائش پر فوکس کیا۔ مسئلے کے اہم حصّے کے بارئے میں بات کریں۔)
اگر فلسطینی سیاستدان اسرائیل کی یہودی خاصیت کو مسترد کرتے ہیں، تو فلسطینی اور وسیع تر عرب اور مسلمان عوام کے بارئے میں کیا خیال ہے؟انتخابات اور دیگر ثبوت اسرائیل کی 20 ٪ منطوری کی ایک – طویل مدتی اوسط رائے کو پیش کرتے ہیں، جبکہ مستقل مدت میں یا اب ، چاہے مسلمان کینیڈا، فلسطین ، یا لبنان میں ہو۔
موجودہ عرب کی رائے کے بارئے میں جاننے کے لیے مڈل ایسٹ فورم نے چار ممالک میں سے ہر ایک کے ہزاروں بالغ افراد سے ایک سادہ سوال پوچھنے کے لیے پیچر مڈل ایسٹ انتخابات کو منعقد کیا : اسلام [ آپ کی ریاست ] کی حدود متعین کرتا ہے ؛ صیحیح حالات کے تحت ، کیا آپ اسرائیل کی یہودی ریاست کو تسلیم کریں گے؟" ( لبنان میں سوال ذرا مختلف تھا : " اسلام مڈل ایسٹ کی زیادہ ریاستوں میں حدود متعین کرتا ہے ؛ صیحیح حالات کے تحت ، کیا آپ اسرائیل کی یہودی ریاست کو تسلیم کریں گے؟")
نتائج : 26 ٪ مصریوں ، اور 9 ٪ سعودی کے شہریوں نے ( نومبر 2009 ء ) میں اس کا جواب ہاں میں دیا ، جیسے کہ ( اپریل 2010 ء میں) 9 ٪ اردنی اور 5 ٪ لبنانیوں نے ایسا کیا۔
انتخابات قبضہ، معاشرتی – اقتصادی پائیداری ، اور عمر جیسے اختلافات کے آر پار وسیع اتفاق رائے کو ظاہر کرتے ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی قابل فہم وجہ نہیں ہے، بہت سی مصّری عورتیں اور سعودی اور اردنی آدمی اپنے جنس کے ہم منصبوں کے مقابلے میں ایک یہودی اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، جبکے لبنانیوں میں دونوں جنسوں کی درجہ بندی برابر ہے۔ چند اہم تبدیلیاں موجود ہیں تاہم : کوئی ایک اس کی توقع لبنان میں کر سکتا ہے، شمالی لبنان کے صرف 16 ٪ ( جس میں زیادہ تر عیسائی شامل ہیں ) نے بیکا وادی میں صرف 1 ٪ ( جن میں زیادہ تر شیعہ موجود ہیں ) کے برعکس ایک یہودی اسرائیل کو تسلیم کیا۔
مزید نمایاں طور پر ، ان کی آبادیوں کی تعداد کے لحاظ سے ان جوابات پر غور کرتے ہوئے ( بالترتیب ، 79، 29، 6، اور 4 ملین ) جو مجموعی طور پر اوسطا 20 ٪ اسرائیل کی یہودیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ایک بہتر طریقے سے ایک موجودہ فیصد کی تصدیق کرتے ہین۔
اگرچہ 20 ٪ ایک چھوٹی سی اقلیت کو تشکیل دیتی ہے ، گزرتے ہوئے وقت اور جگہ کے ساتھ اس کی مستقل مزاجی متاثرکن ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں، عربوں، اور یہاں تک کہ فلسطینیوں کا ایک پانچواں حصّہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کو تسلیم کرتا ہے، آموزش اور دھمکیوں کی ایک قریبی – صدی کے باوجود ، عرب – اسرائیل تنازعے کو حل کرنے کی بنیاد اپنا ایک وجود رکھتی ہے۔
کیا صلح کروانے والے اس اعتدال پسند جماعت کے سائز کو بڑھانے کے لیے اپنی توجہ مرکوز کریں گے ۔ کہا جاتا ہے 20 ٪ سے 60 ٪ تک حاصل کر لینا یقینی طور پر مڈل ایسٹ کی سیاست کو بنیادی طور پر تبدیل کر دئے گا ، اسرائیل کو اس کے مبالغہ آمیز کردار سے پیچھے ہٹا دئے گا اور اس برباد خطے کے لوگوں کو آزادی دئے گا کہ وہ اپنے حقیقی مسائل کو حل کریں ۔ صہونیت نہیں بلکہ مطلق العنانی ، ظلم، مظالم، سازشیں کرنا، مذہبی عدم برداشت، الہامیت، سیاسی انتہاء پسندی، زن بیزاری، غلامی، اقتصادی پسماندگی، برین ڈرین، سرمایہ دارانہ ترقی، کرپشن اور قحط سالی جیسے چھوٹے مسائل کو حل کریں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔