میں نے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ، عراق میں ہونے والی جنگ " ترکی کی حمایت یافتہ سنی جہادی جو کہ مرکزی حکومت پر مبنی ایرانی حمایت یافتہ شعیوں کے خلاف بغاوت کرنے پر مشتمل ہے۔
کچھ قارئین یہ سوال کرتے ہيں کہ ترکی جمہوریہ " عراق اور شام میں اسلامی ریاست کی حمایت کرتا ہے ،" مرکزی سنی گروپ عراق میں لڑ رہا ہے۔ وہ ترکی کے مفادات پر آئی – ایس – آئی – ایس کے حملوں، ترکی کے ساتھ ، شام کے ساتھ اس کی سرحد، اور موصل میں اور ترکی اور ایرانی صدور کی حالیہ کامیاب ملاقات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اچھا نقط ہے لیکن اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ آئی – ایس – آئی – ایس ترکی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہےجب کہ وزیراعظم اور اس کے ہم وطنوں کو کافر ( مشرک ) کے طور پر دیکھتا ہے جنھیں حقیقی اسلام دیکھانے کی ضرورت ہے۔
دوسرا یہ کہ، صدارتی دورہ ایک سطح پر ہو سکتا ہے جبکہ شام اور عراق میں لڑائی دوسری سطح پر ہے؛ دونوں بیک وقت ہو سکتے ہیں۔ ترکی اور ایرانی دشمنی اپنے عروج پر ہے اور جیسے کہ ایک ممتاز ترکی صحافی براک بیکڈل جو کہ مڈل ایسٹ سہہ ماہی کے موجودہ شمارئے میں یہ بیان دیتا ہے :
کہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی طرف سے کامیاب باہمی تجارت اور مشترکہ اسرائیل مخالف یک جہتی کے بارئے میں اکثر سرکاری زبان کو لکھا گیا ہے۔ لیکن یہ زیادہ تر منظر عام سے اوجھل ہی رہا ہے ، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی، بد اعتمادی ، اور باہمی فرقہ وارانہ شبہات کی طرف اشارئے ملے ہیں۔
انقرہ آئی – ایس – آئی – ایس کی مدد کرنے سے انکار کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے شواہد موجود ہیں۔ ایک ترکی اخبار کے کالم نگار، اورہن کیمل کینگیز لکھتے ہیں کہ "ہم شام کے ساتھ ایک طویل سرحد رکھتے ہیں۔" بے شک ، آئی – ایس – آئی – ایس کے مضبوط ٹھکانے اتفاقی طور پر ترکی کی سرحدوں کے پاس جمع نہیں ہوئے۔
کرد تعلیمی ماہرین اور شامی اپوزیشن اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ، شامی ترک ( جن کی اندازن تعداد 3،000 ہے ) ، اور غیر ملکی جنگجؤ ( خاص طور پر سعودیہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مغربیوں کی بھی ایک مناسب تعداد شامل ہے ) جو کہ آئی – ایس – آئی – ایس میں شامل ہونے کے لیے اپنی مرضی سےترک – شامی سرحد کو پار کر چکے ہیں۔ جس کو ترکی کے صحافی کدرل گورسل ایک " دو طرفہ جہادی ہائی وئے " کہہ کر پکارتے ہیں ، جس میں سرحدوں کی جانچ پڑتال کرنے کی زحمت نہيں کی جاتی اور بعض اوقات ترکی اینٹیلی جنس سروس کی سرگرم معاونت شامل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ سی- این- این نے " خفیہ جہادی ترکی کے راستے کے ذریعے اسمگلنگ کر رہے ہیں " پر ایک ویڈیو نشر کی۔ دراصل ، ترک سرحد پار کرنے کی کہیں زیادہ آسان راستے کی پیشکش کرتے ہیں : وہ آئی – ایس – آئی – ایس کو فنڈز کا ایک بڑا حصّہ ، لاجیسٹکس ، تربیت اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں ۔ شامی سرحد کے قریب ترکی کے رہائشی یہ بتاتے ہیں کہ ترکی کی ایمبولینسیں کردش آئی – ایس – آئی – ایس کے جنگ زدہ علاقوں کی طرف جاتیں ہیں اور پھر آئی – ایس – آئی – ایس کی ہونے والی ہلاکتوں کو ترکی ہسپتالوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ بے شک ایک سنسی خیز تصویر منظر عام پر آئی جو یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اپریل 2014 ء میں ہاٹی سٹیٹ ہسپتال میں آئی – ایس – آئی – ایس کے کمانڈر ابو محمد بستر پر لیٹے ہوئے جنگی زخموں کا علاج کروا رہے ہیں ۔
اپریل 2014 ء میں ہاٹی سٹیٹ ہسپتال میں آئی – ایس – آئی – ایس کے کمانڈر ابو محمد شام کی لڑائی میں حاصل کیے گئے زخموں سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ |
ایک ترکی اپوزیشن کے سیاستدان یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ ترکی آئی – ایس – آئی – ایس کو تیل کی ترسیل کے لیے 800 ملین ڈالر اداء کرتا ہے ۔ ایک دوسرئے سیاستدان نے فعال ڈیوٹی کے ترکی فوجیوں کی آئی – ایس – آئی – ایس کے اراکین کی تربیت کرنے کے بارئے میں معلومات جاری کی۔ ناقدین یہ بیان دیتے ہیں کہ ترکی کے وزیراعظم ریسیپ طیب ایردوان نے، کسی یاسین القاضی کے ساتھ تین مرتبہ ملاقات کی ، جو کہ آئی – ایس – آئی – ایس کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا ہے اور اس کی مالی مدد کرتا ہے۔
روجاوا کا پرچم، یا شامی کردستان۔ |
کیوں ترکی خوف زدہ ارادئے رکھنے والے انتہاء پسندوں کی حمایت کرتا ہے ؟ کیونکہ انقرہ شام کے دوممالک ، دمشق میں اسد حکومت اور روجاوا ( ابھرتی ہوئی کرد ریاست ) شمال مشرق کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اسد حکومت کے حوالے سے : یہ سوچا جا رہا ہے کہ " جہادی شام میں ، اسد حکومت کے لیے ایک فوری زوال کو یقینی بنائیں گے ، ترکی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جہادیوں کی حمایت پر ، حکام کتنے پرجوش طریقے سے تردید کرتے ہیں ،" کینگیز لکھتے ہیں کہ " ان انتباہ کے باوجود سب سے پہلے مغربیوں کے ساتھ اور بعد میں عرب ممالک کے ساتھ ۔"
روجاوا کے حوالے سے : روجاوا کی قیادت کو پی- کے- کے کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے ، ( سابقہ ) دہشت گرد گروپ جو کہ ترکی میں قائم ہے، بااختیار ترکی صحافی امبراین زمان کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ " کچھ عرصے پہلے تک ، ترکی نے کردوں سے لڑنے کے لیے جہادی جنگجؤوں کو بلا روک ٹوک اپنی سرحدوں کے آر پار جانے کی اجازت دئے دی تھی ۔"
۔ استنبول میں قائم ایک خیراتی ادارہ ( جس کا م خفف ہیسادر ہے ) نے اسلامی عقائد کے بیان کو آئی – ایس – آئی – ایس کے لوگو کے ساتھ اپنا لیا۔ |
زیادہ واضح طور پر بات کرتے ہوئے،جیسے کہ ترکی کے تجزیہ نگار مصطفی اکیول بیان دیتے ہیں کہ،انقرہ سوچتا ہے کہ" کوئی بھی جو الاسد کے ساتھ جنگ کرئے گا وہ ایک اچھا آدمی ہو گا اور " اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اسلام پسند خوفناک کام کر سکتے ہیں ایک نظریاتی بے چینی کی بھی حمایت کرئے گا۔" وہ تسلیم کرتا ہے کہ ، متشدد جہادیوں کی طرف سے یہ " کچھ اندھے پن " کا باعث بنے گا ۔ بے شک، آئی – ایس – آئی – ایس ترکی میں اس قدر مقبول ہے کہ دوسرئے عوامی سطح پر اس کے نشان کو کاپی کرتے ہیں۔
اس حمایت کا سامنا کرتے ہوئے ، آن لائن اخبار المونیٹر ترکی سے مطالبہ کرتا ہے کہ آئی – ایس – آئی – ایس کے لیے اس کی سرحدوں کو بند کر دیا جائے جبکہ روجاوا انقرہ کو " سنگین نتائج " کی دھمکی دیتا ہے جب تک ترکی کی امداد بند نہیں ہو جاتی ۔
آخر میں، ترکی کے لیڈر ، شام کو ایک دوہری رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ، اسد کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے جو کہ ابھی تک اقتدار میں ہے اور کردوں کا وجود دن بدن مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کے جواب میں ، انھوں نے سب سے زیادہ انتہاء پسند ، زوال پذیر اور خطرناک عناصر رکھنے والے ، جیسے کہ آئی – ایس – آئی – ایس کے ساتھ تعاون کیا ۔ لیکن یہ حمایت عراق میں ایک دوسرا محاذ کو کھول دئے گی جس کے نتیجے میں مشرق وسطی کے دو ٹائٹس ، ترکی اور ایران ، کے تصادم کے حصّول کو قریب لے آئے گا۔