حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ پرانے خیالات کو پروان چڑھاتی ہے : فلسطین کے بارئے میں کیا کرنا چاہیے؟ اسرائیل سمیت مغربی ریاستوں کو ، مغربی کنارئے اور غزہ کی طرف اپنی پالیسی کو معلوم کرنے کے لیے اہداف کو مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے جائزہ لیتے ہوئے ہم کیا جانتے ہیں ہم کیا نہیں جانتے اور کام نہیں کر سکتے۔
- اسرائیلی کنٹرول : کوئی بھی سائیڈ اس صورت حال کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی جو 1967 ء میں شروع ہوئی، جب اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ایک آبادی کا کنٹرول اپنے اختیار میں لے لیا جو کہ مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، اور سیاسی طور پر مختلف اور مخالف ہیں۔
- فلسطینی ریاست: 1993 ء کے اوسلو معاہدئے نے یہ عمل شروع کیا لیکن انتشار کا زہریلا مرکب ، نظریاتی انتہاء پسندی، سام – مخالف ، جہادیت اور ایک فوجی قیادت جو ملک کے ایک حصّے پر قبضہ کر کے فلسطینیوں کی مکمل ناکامی کی وجہ بنی۔
- دو قومی ریاست: دو آبادیوں کی' 'باہمی نفرت کو دیکھتے ہوئے ایک مشترکہ اسرائیل – فلسطین کی ریاست کا امکان مضحکہ خیز دیکھائی دیتا ہے ( جس کو معمر القذافی " اسرائین " کہتے ہیں)۔
ان تین امکانات کو نکالتے ہوئے جو صرف ایک عملی نقطہ نظر کو چھوڑ دیتا ہے، جس نے 1948 ء سے 67 ء کی مدت کے دوران بہترین قابل قبول کام کیا۔
- اردن اور مصّر کی مشترکہ حکمرانی : عمان مغربی کنارئے پر حکمرانی کرئے اور قاہرہ غزہ کی حکومت کو چلائے۔
اس بات کا مکمل یقین کرتے ہوئے، یہ مستقبل کے نقطہ نظر پر واپس جاتا ہے جو اس کے جوش و جذبے سے بہت کم متاثر ہوتا ہے۔ نہ صرف اردنی – مصّری حکمرانی غیر واضح تھی بلکہ اس نظام کو پھر سے بحال کرنا فلسطینی تحریک کو مایوس کردئے گا، وہ قوم پرست یا اسلام پسند بن جائیں گے۔ مزید یہ کہ، قاہرہ غزہ کو نہیں چاہتا اور پر جوش طریقے سے اس کی واپسی کو مسترد کو دئے گا۔ اس کے مطابق ایک تعلیمی تجزیہ کار نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ یہ " ایک دھوکے باز خیال ہے جو ایک غیر واضح حقیقی اور مشکل انتخاب ہو سکتا ہے"۔
ایسا نہیں ہے ۔ فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس اور یاسر عرفات کی ناکامی اور " امن کے عمل " کو عمان یروشلم میں ازسرنو طریقے سے فروغ دیا گیا ۔ بے شک کرسچن سائنس مونیٹر کے ایلن آر۔ پریوسچر نے 2007 ء میں پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ مغربی کنارئے اور اردن کا اتحاد " ایسا لگتا ہے کہ یہ دریائے اردن کے دونوں طرف منظوری حاصل کر رہا ہے۔"
اردنی حکومت جس نے بہت جوش و خروش سے 1950 ء میں مغربی کنارئے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1988 ء میں صرف دباؤ کے تحت اپنے دعوؤں کو ترک کر دیا ، جو یہ علامت ظاہر کرتا ہے کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں۔
ڈئین ڈیکر اور پینچس اینباری نے 2006 ء میں مڈل ایسٹ کوارٹرلی کے لیے دستاویز لکھے کہ کس طرح پی – ائے کے کنٹرول کا دعوی کرنے میں ناکامی اور جو ایک سیاسی طور پر قابل عمل ہستی بن گیا جس نے عمان کو دوبارہ نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا کہ کیا اسے مغربی کنارئے کی طرف کی جانے والی حکمت عملی پر سے ہاتھ اٹھا لینے چاہیے کیا یہ اس کے لیے بہترین مفادات میں سے ہے ۔" اسرائیلی حکومت نے اس خیال پر خود کو ایک کھلے خیال کا ظاہر کیا ،اور اردنی فوجوں کو مغربی کنارئے میں داخل کرنے کا کبھی کبھار مطالبہ کیا۔
خود حکمرانی سے مایوس ہو کر کچھ فلسطینیوں نے اردن کے آپشن کو خیر مقدم کہا۔ ایک نامعلوم پی – ائے کے اہلکار نے ڈیکر اور اینباری کو بتایا کہ اردن کے ساتھ ایک وفاق اور الحاق کی ایک صورت " صرف معقول ، مستحکم، طویل مدتی فلسطینی – اسرائیلی تنازعے کے حل کی پیشکش کرتا ہے۔" حانا سئنیورا یہ رائے ظاہر کرتا ہے کہ " دو ریاستی حل کے لیے موجودہ کمزور امکانات ہمیں اردن کے ساتھ اتحاد کے امکان پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔" نیو یارک ٹائمز کے ' حسن ایم فتح اردن میں فلسطینیوں کا حوالہ اس طرح دیتے ہیں کہ : " ہمارئے لیے ہر چیز تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ ہم 60 سالوں سے لڑ رہے ہیں اور کچھ نہیں بچا ۔ اگر بادشاہ عبداللہ مغربی کنارئے کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں ، تو یہ بہتر ہو گا کہ اردن فلسطین میں انتظام سنبھال لیں۔
یہ صرف باتیں نہیں : ڈیکر اور اینباری نے رپورٹ دی کہ خفیہ طور پر پی – ائے اور اردن کے مذاکرات ہوئے " جس کے نتیجے میں ایک اصولی معاہدئے کے تحت 30،000 بدر فورس ارکان کو مغربی کنارئے بھیجا گیا ۔
اور جبکہ مصّر کے صدر حسنی مبارک نے ایک سال قبل اعلان کیا کہ " غزہ مصّر کا حصّہ نہیں ہے ، اور نہ ہی کبھی ایسا ہو گا،" کیا یہ بامشکل ہی ان کے آخری الفاظ تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ ، مبارک کے ہونے کے باوجود ، مصّری غالب اکثریت سے غزہ کو مضبوطی سے اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں؛ حماس اس بات سے اتفاق کرتا ہے : اور اسرائیلی رہنماء بعض اوقات اس پر متفق ہو جاتے ہیں۔ تاہم پالیسی میں ایک تجدید کے لیے ایک بنیاد موجود ہے۔
دوسرا یہ کہ بلاشبہ غزہ " فلسطین " کی نسبت مصّر کا حصّہ ہے ۔ بہت زیادہ اسلامی مدت کے دوران ، یہ یا تو قاہرہ کے کنٹرول میں تھا یا انتظامی طور پر مصّر کا حصّہ تھا ۔ غزہ کی عربی بول چال سیناء میں رہنے والے مصّریوں کی بول چال جیسی ہے۔ اقتصادی طور پر، غزہ مصّر سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ حماس بذات خود اسے ایک مصّری تنظیم کے طور پر مسلمان بھائیوں کی طرف سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ غزہ والوں کو مصّریوں کے طور پر سوچنے کا ٹائم ہے؟
تیسرا، یروشلم مبارک کے ماہرانہ نطام کو برطرف کر سکتا ہے۔ کیا یہ ایک تاریخ کا اعلان کریں جب یہ تمام بجلی، پانی، خوراک، ادوایات اور دیگر ٹریڈ کی فراہمی کو ختم کر دئے گا، اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں مصّریوں کی سکیورٹی کو بہتر بنائے کا، قاہرہ کو ہر صورت میں غزہ کی ہمدردی لینی چاہیے ۔ دیگر فوائد کے علاوہ ، یہ اسے غزہ کی سکیورٹی کے لیے جواب دہ بنائے گا، آخرکار حماس کے ہزاروں راکٹوں اور مارٹر حملوں کا خاتمہ کرئے گا۔
اردن – مصّر آپشن کسی پلس کو تیز نہیں کرئے گی، لیکن اس کی اپنی قیمت ہو سکتی ہے۔ یہ " فلسطینی مسائل " کو حل کرنے کے لیے ایک منفرد سادئے طریقے کی پیشکش کرتی ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔