1967 ء اور 1993 ء کے درمیان، مغربی کنارئے اور غزہ سے صرف چند سو فلسطینیوں نے اسرائیلی عربوں سے شادیاں کر کے اسرائیل میں رہنے کا حق حاصل کیا ( جو اسرائیل کی آبادی کا تقریبا پانچواں حصّہ تشکیل دیتے ہیں ) اور اسرائیلی شہریت حاصل کر رہے ہیں ۔ تب اوسلو معاہدہ ایک معمولی – قابل ذکر وقتی – خاندانی ملاپ کی پیشکش کرتا ہے، جس نے اس قطرئے کو دریا میں تبدیل کر دیا ؛ فلسطینی اتھارٹی ( پی – ائے ) کے 13،7000 رہائشی 1994 ء سے 2002 ء کے درمیان اسرائیل منتقل ہو گئے، ان میں سے کچھ یا تو مصنوعی یا کثیر الازواج شادیوں سے منسلک ہیں۔
یروشلم میں اسرائیلی سپریم کورٹ کی عمارت۔ |
اس بے قابو امیگریشن سے بچنے کے لیے اسرائیل کے پاس دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی ، یا تو یہ سیکورٹی کے خطرئےکی پیشکش کرتا ہے۔ یوول ڈیسکن جو کہ شن بیٹ سیکورٹی سروس کے سربراہ ہیں، 2005 ء میں انھوں نے یہ بیان دیا کہ 225 اسرائیلی عربی اسرائیل کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان میں سے 25 ، یا 11 ٪ ، قانونی پر خاندانی مجموعی فراہمی کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ انھوں نے 19 اسرائیلیوں کو قتل اور 83 کو زخمی کیا؛ سب سے زیادہ شدید واقعہ جب 2002 ء میں حماس کی جانب سے ہائیفہ میٹزا کے ہوٹل میں شیدی توبیسی کا خود کش بم دھماکہ، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔
دوسرا یہ کہ، " واپسی کے حق " کے لیے فلسطینیوں کے ایک خفیہ طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے، اس لیے یہ اسرائیل کی یہودی فطرت کو کمزورکررہے ہیں۔ وہ نئے 13،7000 نئے شہری اسرائیل کی ابادی کا 2 ٪ تشکیل دیتے ، جو کہ کوئی کم تعداد نہیں ہے شیدی توبیسی جو اب وزیر خارجہ ہیں، انھوں نے 2003 ء میں پی – ائے کے خاندانی ملاپ کے لیے حوصلہ افزائی کی ترکیب کو اسرائیل میں فلسطینیوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے " ایک سوچی سمجھی حکمت عملی " کہا اور جو اس کی یہودی خاصیت کو کمزور کر دئے گی۔ احمد قوریری جو کہ ایک اعلی پائے کے فلسطینی مذاکرات کار ہیں، بعد میں انھوں نے اس خوف کی تصدیق کی :" اگر اسرائیل سرحدوں کے حوالے سے [ایک فلسطینی ریاست ] کی تجاویز کو مسلسل رد کرتا رہا ، تو ہم اسرائیلی شہریت کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔"
ان دو خطرات کے جواب میں، جولائی 2003 ء میں اسرائیل کی پارلیمینٹ نے " اسرائیل کے قانون میں شہریت اور داخلے " کے قانون کی منظوری دئے دی ۔ اس قانون نے خود کار طریقے سے اسرائیلی رہائش یا شہریت حاصل کرنے پر فلسطینی خاندان کے اراکین پر پابندی لگا دی ، عارضی اور محدود چھوٹ کے ساتھ وزیر داخلہ کو ان کے بارئے میں یہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ ہیں یا دوسرئے طریقوں سے مددگار ہونگے۔ شدید تنقید کا سامنا کرتے ہوئے ، اس وقت کے وزیراعظم ایریل شیرون نے 2005 ء میں یہ توثیق کی کہ " اسرائیل ریاست کو اپنی یہودی خاصیت کو برقرار رکھنے کے لیے اور اس کی حفاظت کرنے کا پورا حق ہے، یہاں تک کہ اگر اس کے ذریعے وہ اس کی شہریت کی پالیسی پر بھی اثرانداز ہو گا۔ "
1939 ء میں ویٹسن چرچل۔ |
ایک وکیل ساسن ظاہر کے مطابق، جس نے قانون کو چیلنج کیا ، کہ معافی کے لیے دی جانے والی 3000 درخواستوں میں سے صرف 33 کے لیے منظوری دی گی۔ اسرائیل بامشکل ہی وہ واحد ملک ہے جو کہ خاندانی – ملاپ کے لیے اتنے سخت قوانین بنا رہا ہے : مثال کے طور پر ڈنمارک ، میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس نے اس طرح کے قوانین کو جگہ دینے کے لیے ایک دہائی لگا دی، ایک اسرائیلی خاوند کو ( دوسرؤں کے درمیان میں سے ) ملک سے نکال دینا ، ہالینڈ اور آسٹریلیا مندرجہ ذیل مقدمے کے حامل ہیں۔
پچھلے ہفتے، اسرائیل کی سپریم کورٹ ، نے 5-6 ووٹ کے ذریعے، اس تاریخی قانون، کو مستقل بناتے ہوئے، اس کے فیصلے کو برقرار دکھا۔ تاہم شادی کرنے کے لیے ایک شخص کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ، عدالت نے اس بات کی تردید کر دی کہ، اس سے مراد یہ ہے کہ انھیں رہائش کا بھی حق حاصل ہے۔ جیسے کہ عدالت کو صدر مقرر کرتا ہے ، آشر ڈین گریونس ، اکثریت کی رائے میں لکھتا ہے ، " انسانی حقوق قومی خودکشی کے لیے ایک نسخہ نہیں ہے۔" فلسطینیوں کا یہودیوں کی طرف امیگریشن کا یہ طرز عمل تقریبا 1882 ء کی یاد ذہن میں لاتا ہے، جب یورپی یہودیوں نے اپنا عالیہا شروع کیا (جس کے لیے عبرانی میں لفظ "ایسینٹ" ہے، جس کا مطلب ہے اسرائیل کے ملک میں امیگریشن )۔ مثال کے طور پر 1939ء میں ونسٹن چرچل نے یہ بیان دیا کہ اس طرح یہودیوں نے فلسطین میں امیگریشن نے ایک عربوں کی طرح کی امیگریشن کو متحرک کردیا: جن کو کافی دیر سے ستایا جا رہا تھا، ملک میں عربوں کا ہجوم لگ گیا اور وہ تب تک اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی ابادی میں اضافہ ہو گیا ۔
مختصریہ کہ،آپ کو صیہونی اعلی معیارکی زندگی گزارنے کے لیےاور قانون پسند معاشرئے سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہودی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اس موضوع کا ایک طالبعلم جان پیٹرز ،یہ اندازہ لگاتا ہےکہ 1893ءاور 1948ء کے درمیان ایک دوہری یہودی اور عرب امیگریشن " کم از کم برابر تناسب " کے مطابق واقعہ ہوئی ۔ یہاں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے : دیگر جدید یورپی جو کہ غیر آبادی والے علاقوں میں آباد ہیں ( آسٹریلیا اور افریقہ کے بارئے میں سوچیں ) انھوں نے بھی ایسے معاشرئے تشکیل دئیے جنھوں نے مقامی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
تل ابیب میں، 2010 ء میں، ہم جنس پرستوں کی پریڈ: ان میں فلسطینیوں کی کتنی تعداد ہے؟ |
فلسطینی عالیہا کا یہ طریقہ کار اسرائیل کی پیدائش کے بعد سے ہی جاری و ساری ہے۔ یہ یہود - مخالف بھی ہو سکتے ہیں ، لیکن اقتصادی – مہاجرین ، سیاسی مخالفین، ہم جنس پرست، مخبر، اور صرف عام لوگوں کے ووٹوں کا ہجوم ان کے پیچھے ہے،' پی – ائے یا حماس ' "ہیل ہول" مشرق وسطی کی زبردست جدید اور لبرل ریاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہ غور کریں کہ کتنے چند اسرائیلی عربی اپنے شریک حیات کے ساتھ رہنے کے لیے مغربی کنارئے اور غزہ میں منتقل ہوئے ہیں، تاہم کوئی بھی قانونی رکاوٹ انھیں ایسا کرنے سے منع نہیں کرتی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی طویل – مدتی اثرات پر مبنی ہے۔ جیسے کہ ایلی ہازن اسرائیل ہائیمن میں لکھتے ہیں کہ، " عدالت نے وزیراعظم کے مطابق فیصلہ دیا جبکہ یہ بھی سچ ہے کہ اسرائیل کی ریاست ایک یہودی ریاست ہے، اور پس اس کی آبادکاری ایک طویل – سالوں پر مشتمل بحث ہے۔ " "واپسی کے حق کے لیے " چور دروازوں کا بند ہو جانا اسرائیل کے یہودی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرتی ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔