دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سلطنت کے حصے بخروں میں سے مذہبی شناخت کی حامل دو نئی ریاستیں وجود میں آئیں، ایک بلاشبہ اسرائیل اور دوسری پاکستان۔
یہ دونوں ممالک ایک متضاد جوڑے کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کا تجربہ ہر سُو پھیلی غربت ، مسلسل اندرونی انتشار اور بڑھتے بیرونی دباو کے نتیجہ میں ایک ناکام ریاست کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ان سب مسائل سے بچتا ہوا ایک مستحکم، آزاد سیاسی فضا، پروان چڑھتی اقتصادی صورت، جدید ٹیکنالوجی سے لیس، زندہ و جاوید ثقافت اور شاندار سماجی ڈھانچے میں ڈھلے معاشرے کے طور پر ابھر چکا ہے۔
مگر اسرائیل ان تمام کامیابیوں کے باوجود ایک ایسی بدقسمتی کا شکار ہے جس کا پاکستان یا اُس جیسے دیگر ممالک کو سامنا نہیں اور اُس بدقسمتی کا تعلق مٹا دیے جانے کی دھمکیوں سے ہے۔ دہائیوں سے قائم اس کا شاندار وجود اس کو چاروں جانب سے درپیش خطرات سے آزاد نہیں کر سکا۔ ان خطرات کا تعلق ہر ممکنہ بات سے ہے، چاہے وہ خوفتاک تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہوں، روایتی فوجی حملہ ہو، دہشت گردی ہو، اندرونی خلفشار ہو، اقتصادی بائیکاٹ ہوں، نسل کشی ہو اور یا پھر نظریاتی حملے۔
اسرائیل کے دشمن دو کیمپوں پر مشتمل ہیں۔ مسلمان اور بائیں بازو والے۔ ان کے علاوہ دائیں بازو کے انتہا پسند ایک تیسرے اقلیتی کیمپ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ بائیں بازو والے جارحانہ انداز کے ساتھ کھڑے ہیں (جن کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر جواب نوم چومسکی کی صورت میں ہے)۔ اسرائیل کی مخالفت میں (نسبتا دھیمے لیجے کے ساتھ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، کینیڈا کی لبرل پارٹی، مرکزی دھارے کے گرجا خانے اور میڈیا اور درسی کتب پیش پیش ہیں۔ آخری ضرب کے طور پر بائیں بازو کا دایاں پلڑا جو مسلمانوں پر مشتمل ہے یہودی مخالف قوت کے طور پر ایک اضافی کام کر رہا ہے۔ اس پلڑے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے تو وہ پانچ ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل پر مئی ١٩٤٨ کو اُس کے پہلے یوم آزادی کے موقع پر حملہ کر دیا تھا۔ بعد ازاں یہ ہمسائے ١٩٥٦، ١٩٦٧، ١٩٧٠ اور ١٩٧٣ کو اپنی بری، ہوائی اور بحری افواج کے ساتھ چڑھ دوڑھے۔ بعد ازاں اسرائیل بظاہر روایتی حملے سے محفوظ ہوا مگر امریکہ کی مصر کو بھاری اسلحہ کی فراہمی اسرائیل کی سلامتی کا ایک خطرہ بن گئی، دوسرا خطرہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیارات سے درپیش ہوا ( خصوصی طور پر ایران مگر شام اور دیگر ممالک سے بھی ہے)۔
دوسرے درجہ پر اسرائیل سے باہر مقیم فلسطینی ہیں۔ ١٩٤٨ سے ١٩٦٧ کے دورانیہ میں دنیا کی حکومتوں کی بے اعتنائی کے نتیجہ میں یاسرعرفات اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کوتین ممالک کی مسلح مدد کے ساتھ ایک چھ روزہ جنگ میں ہار سے اپنا موقف بنانے کا موقع مل گیا۔ مزید براں ١٩٨٢ میں لبنان کے ساتھ جنگ اور ١٩٩٣ میں اوسلو معاہدے نے اسرائیل سے باہر مقیم فلسطینیوں کی مرکزی حیثیت کو مسلم کر دیا۔ آج یہ فلسطینی تنازعے کو تشدد و جارحیت کے ساتھ بڑھاتے ہیں (دہشت گردی اور غزہ سے میزائیلوں کے حملوں کی صورت میں) اور اس سے بھی زیادہ مضر اثرات یہ ہیں کہ یہ فلسطینی اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا بھر میں خصوصی طور پر مسلم دنیا اور بائیں بازو کے حلقوں میں اسرائیل کا تاثر خراب کر رہے ہیں۔
تیسری سطح پر اسرائیل کے وہ مسلمان شہری ہیں جو برابری کے حقوق حاصل کر رہے ہیں۔ ١٩٤٩ میں ان کی تعداد ١١١،٠٠٠ یعنی اسرائیل کی آبادی کا نو فیصد تھی جو ٢٠٠٥ میں بڑھ کر دس گنا ہو چکی ہے یعنی١،١٤١،٠٠٠ - اسرائیل کی کل آبادی کا سولہ فیصد۔ یہ آبادی اسرائیل کے جمہوری طور طریقوں تلے پروان چڑھتی ہوئی ایک غیر موثر کمیونٹی کی بجائے طاقتور کمیونٹی کا روپ دھار کر اسرائیل کی یہودی بنیادوں کو رد کر رہی ہے جس سے ریاست کی بنیادی شناخت کو ہی خطرہ درپیش ہے۔
اگر مسائل کی یہ طویل فہرست اسرائیل کو مغربی ممالک کی صورتحال سے مختلف مقام پر رکھتی ہے اور اُسے اپنے بے تحاشہ دشمنوں سے دفاع کرنے پر ہر لحظہ مجبور کر رہی ہے تو اسرائیل اپنی نازک صورتحال میں مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی صف میں کھڑا ہے جو خود بھی اپنے اپنے مقام پر صفحہ ہستی سے مٹنے کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
کویت جو اگست ١٩٩٠ اور فروری ١٩٩١ کے دوران عراق کے حملہ کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ گیا تھا، آج بھی مکمل طور پر اپنی پہلی جیسی حالت میں واپس نہیں آیا ۔ یہ سب کچھ (کویت پر حملہ) امریکہ کی قیادت میں کسی حملہ کی صورت میں نہ ہوا تھا۔ لبنان عملی طور پر ١٩٧٦ سے شام کے زیر تسلط ہے۔ جب بھی کبھی باضابطہ الحاق کی ضرورت ہوئی شام اُسے اپنے اندر ضم کر لے گا۔ بحرین کے بارے ایران اپنی ملکیت کا اظہار کئی بار کر چکا ہے جس کا آخری اظہار جولائی ٢٠٠٧ میں ہوا تھا، جب ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامینائی کے معاون نے کہا، " بحرین ایرانی سرزمین کا اٹوٹ انگ ہے"۔ معاون نے مزید کہا، "بحرین کے عوام کا بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے کہ اس صوبہ کو اپنی مادر دھرتی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ نتھی کیا جائے"۔ اُردن کے آزاد ریاستی وجود کو کو ہمیشہ دو وجوہات کی بنا پر شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ ایک تو یہ کہ اسے ونسٹن چرچل کے نوآبادیاتی زمانے کی ایک سازش سمجھا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ دیگر ریاستیں ( شام، عراق، سعودی عرب ) اور فلسطینی اسے ایک آسان شکار سمجھتی ہیں۔
اس طرح کی سورتحال میں گھرا اسرائیل کئی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کے وجود کے دوراہے کو بیان کرتی ہے۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ سے باہر کسی ملک کو اس طرح کے خدشات کا سامنا نہیں مگر مشرق وسطیٰ میں ایسے خدشات تو معمول کا حصہ ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیل کا غیر متعینہ وجود جلد کسی حل سے دوچار ہونے والا نہیں۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ کے ظالم، غیر مستحکم اور خونی سیاسی انداز کو بیان کرتی ہے۔ یہ خطہ بلاشبہ دنیا کے خطرناک ہمسایوں کا خطہ ہے۔ اسرائیل آنکھوں پر عینک چڑھائے ایک ایسا بچہ ہے جو شہر کے ایسے اسکول میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہا ہے جہاں اردگرد خونی جتھوں کا راج ہے۔
مشرق وسطیٰ کے گہرے اور پاٹ دار سیاسی بدوضع نظام میں اسرائیل - عرب تنا زعہ کوبنیادی وجہ قرار دینا ایک غلطی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دانشمندی کا مقام تو یہ ہے کہ خظے کی زہریلی سیاست سے اسرائیل کے کردار کو الگ دیکھا جائے۔ مشرق وسطیٰ کی مطلق العنانی، انتہا پسندی اور تشدد کے رجحان کو اسرائیل کے گلے تھوپنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مخلص طالبعلم کو اسکول کے گینگ کی حرکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ لہذا عرب اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کا مقصد فقط اسی مسئلہ کو حل کرنا ہے، خطے کی باقی مسائل اس سے پھر بھی حل نہیں ہوتے۔
اگر خطے کی پانچوں طاقتوں کو اپنی بقا کا خطرہ درپیش ہے تو اسرائیل کو مزید خطرات بھی لاحق ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران بے شمار خطرات سے اسرائیل خود کو مخفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور اسرائیل نے ایسا انتہائی باوقار طور پر کیا ہے جوامر اس کے عوام کو بلاشبہ طمانیت فراہم کرنے کا حق بجانب ہے۔ مگر یہ طمانیت زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتی جس کو مزید خدشات کی راہ میں حائل خدشات کا سامنا ہے۔