ایک کمپیوٹر کی اصطلاح کو مستعار لیتے ہوئے ، اگر آیتاللہ خمینی، اسامہ بن لادن اور نداحسن اسلام ازم 1.0 پیش کرتے ہیں ،ریسپ ٹائپ اردوگن( ترکی کا وزیر اعظم) ، طارق رمضان ( سوئس مفکر) ، اور کیتھ ایلیسن ( ایک امریکی کانگرس مین) اسلام ازم 2.0 کی اصطلاح پیش کرتے ہیں۔ پہلی اصطلاح نے بہت سارے لوگوں کو مارا جبکہ دوسری اصطلاح نے مغربی تہذیب کو ایک بہت بڑی دھمکی دی۔ 1.0 ورژن جس نے ان پر ایک ایسے معاشرے کو جس کی منزل رکاوٹ کا وصول کرنا تھا اُ ن کی طرف سے جو دنیا میں خلافت اور مکمل طور پر شریعت ( اسلامی قانون)کی وساطت سے حملہ کرنا تھا۔ اسلام ازم اصلیت میں تکنیکیں تھیں جو بڑے تشدد کے لیے مکمل حکمرانی تھی جو لامحدود جنگلی ہونے کو ظاہر کرتی ہے تین ہزار ایک ہی حملے میں مارے گئے ۔ بن لادن کی تحقیق ایٹمی ہتھیاروں کے لیے یہ تھی کہ مار دینے والے ہتھیار ایک سو یا ایک ہزار گُنا بڑا ہو۔
تاہم ماضی کے پچھلے تین عشروں میں ایک جائزے کے مطابق جب سے اسلام ازم ایک خاص سیاسی قوت بنا اس سے پتا چلا کہ صرف تشدد ہی نایاب طور پر کام کرتا ہے تشدد میں حکمرانی کرنے والے بہت کم طور پر ایک اصلی اسلام کو پیش کرتے ہیں نہ ہی انور السادات کی 1981 میں مصر میں کردار کشی کے بعد نہ ہی 9 سے 11 حملوں کے بعد جو 2002 میں بالی بم سے ہوئے نہ ہی 2004 میں میڈرڈ بم سے ہوئے نہ ہی جو 2005 میں امان بم سے ہوئے یا نہ ہی اسرائیل عراق افغانستان اور پاکستان میں تشدد کی مہموں کے بعد ہوئے۔ تشدد نے جسمانی تباہی اور قتل اور خوف پیدا کیا بلکہ اس نے کم و بیش بقا کی ترتیب کو موڑا ۔ تصور کریں کہ اسلام کو ماننے والے حیرکِن کترینا یا2004 کے سمندری طوفان کی اس سبب سے ہونے والی تباہی کا سبب بنے کیا یہ کم و بیش آخری حصول تھا؟
غیر تشدد مشتعل لوگوں نے شریعت کو لاگو کر کے سختی کے ساتھ اس کو لاگو کیا ۔ انقلاب ( جس کا مطلب ہے ایک وسیع سطح پر سماجی تبدیلی) نے اسلام کے ماننے والوں کو ایک ہی وقت میں ایک جگہ پر طاقت ور بنایا جیسے 1978 سے 1979 میں ایران میں۔ جس طرح کاپی دیت ( ایک فوجی انقلاب) نے انہیں ایک دفعہ قوت دلائی 1989 سوڈان میں اسی طرح سول وار نے 1996 میں افغانستان میں۔
اگر اسلام ازم 1.0 کے تشدد نے کامیابی حاصل کی تو اسلام ازم 2.0 کے لائحہ عمل نے کام کے اس نظام کو بہتر کیا۔ اسلام کے ماننے والوں نے ایک کامیاب عوامی رائے اختیار کی مسلمان اکثریت نے ایک بڑی مخالف قوت کو پیش کیا یہ بھاری مسلم ممالک کی قوت تھی جیسے مراکو، مصر، لبنان، اور کویت۔ اسلامیوں نے 1992 میں الغاریہ میں انتخابی کامیابی کو 2001 میں بنگلہ دیش میں 2002 میں ترکی میں اور 2005 میں عراق میں اس کی کامیابی کا لطف اٹھایا۔
ایک دفعہ طاقت میں وہ ملک کو شریعت کی طرف موڑ سکتے تھے جیسا کہ محمود حمدانی جد نے ایرانی غضب کا سامنا کیا ایرانی گلیوں میں مظاہرے اور بن لادن نے غار میں چھپ کر ایتھوگان نے عوامی منظوری پر بات کی ریپبلک آف ترکی پر رائے دی اور پوری دنیا میں اسلام کا ایک غیر روایتی نمونہ پیش کیا۔ اسی طریقہ کار کو پہچانتے ہوئے القاعدہ کے ایک دفعہ بڑے رہنما نے عوامی طور پر دہشت گردی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سیاسی ذرائع استعمال کیے ۔ سید امام الشریف ( 1950 میں بھی جو نامدی گورے ڈاکٹر فیڈل کے نام سے جانا جاتا تھا) اس نے سادات کی معاونت حاصل کی 1988 میں اس نے ایک کتاب شائع کی اور ابتدائی تشدد پر بات کرتے ہوئے مغرب والوں کے خلاف جہاد پر بحث کی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ شریف نے تشدد کے حملوں کی تعمیل کو جانچا اور بجائے اس کے اس نے حکومت کی پالیسیوں کی اور سوسائٹی پر اس کے تاثر کی وکالت کی۔
ایک حالیہ کتاب میں اس نے مسلمانوں کے خلاف جبر کے استعمال کی مذمت کی ( خون کا ایک ایک قطرہ جو بہایا گیا یا افغانستان اور عراق میں بہایا جا رہا ہے وہ بن لادن زواہری اور ان کے پیروکاروں کی ذمہ داری ہے اور یہاں تک کہ ان کے خلاف غیر مسلم 9 سے 11 لوگ باہمی پیداوار کے خلاف تھے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ آپ دشمن کی عمارتوں کو تباہ کریں اور تمہارے ممالک میں سے کسی ایک کو تباہ کریں؟ کیا یہ اچھا ہے اگر آپ اس کے لوگوں کو ماریں اور وہ آپ کے لوگوں کو مارے؟
دہشت گردی کے سوچنے والے نظریے سے شریف نے جو بات بڑھائی وہ شرعی تبدیلی کی بازگشت کی ایک وسیع صورت حال پر وکالت ہے۔ ایک مصنف لارنس رائٹ کے مطابق کہ اس کی مقصد کی ترک کرنے والی کوششیں القاعدہ کے لیے " خوفناک خطرہ" ہیں۔ دوسرا ایک دفعہ تشدد پسند اسلامی تنظیمیں الغاریہ ، مصر، شام نے اس بات کو پہچان لیا ہے کہ شرعی قوت سے بھرے اسلام ازم اور وسیع پیمانے پر تشدد کا خاتمہ ہی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ مغربی ممالک میں بھی رمضان اور ایلیسن اسی طریقہ کار کو پیش کرتے ہیں۔
(اگر کوئی اسلام ازم 1.5 کی بات کرتا ہے تو یہ سخت اور نرم وسائل کا امتزاج ہے جو خارجی اور داخلی خیالات کے ساتھ ساتھ بھی کام کرتے ہیں ۔ اس میں شرعی اسلام کو ماننے والے نرمی کے ساتھ دشمنی میں شامل ہیں پھر تشدد پسند پہلو قوت کو گھٹاتے ہیں ۔ حماس نے غزہ سے اگے بڑھ کر ثابت کیا کہ ایسا امتزاج کام کر سکتا ہے : وہ 2006 میں الیکشن جیتتا ہے اور پھر 2007 میں ایک پر تشدد بغاوت کا مقام آیا اسی طرح کے عوامل ممکنا طور پہ پاکستان میں موجود ہیں ۔برطانیہ ہو سکتا ہے کہ اس عمل کے برعکس ہو جہاں سے تشدد ایک سیاسی آغاز کو جنم دیتا ہے)۔
نتیجتاً محض اسلام والے یا فاحشسٹ یا کیمونسٹ زبردست قوت سے آگے بڑھ چکے ہیں عوامی مدد اور 2.0 ورژن کو ترقی دینے میں کیونکہ اسلام ازم کا یہ پہلو روایتی اقدار کو ختم کرتا اور آزادیوں کو تباہ کرتا ہے اور ہو سکتا ہے یہ زندگی کی تہذیب کے لیے 1.0 ورژن سے بڑھ کر وحشیانہ خطرہ ہو۔