عربی لفظ " جہاد " کا مطلب کیا ہے۔
پچھلے ہفتے ایک جواب آیا، جب صدام حُسین نے مسلم دنیا میں اپنے اسلامی رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ " بدقماش امریکیوں" کو شکست دینے کے لیے اس کے جہاد میں شامل ہوں۔ کیا انہیں عراق پر حملہ کرنا چاہیے تھا، پھر اس نے خود بخود ہی امریکہ کو جہاد کی دھمکی دی۔
جیسے کہ یہ صلاح دی گئی کہ جہاد " مقدس لڑائی" ہے یا اور زیادہ اختصار کے ساتھ اس کا مطلب ہے قانونی، لازمی، گروہی کوشش ایسے علاقوں کو وسعت دی جائے جن پر مسلمان حکومت کریں جو تاحال وہ علاقے ہیں جن پر غیر مسلم حکومت کرتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں جہاد کا مطلب ہے کہ براہ راست اسلامی ایمان کو پھیلانا نہیں بلکہ اسلامی قوت کی مطلق العنانیت کو بڑھاتا ہے ( ایمان، بلاشبہ، اکثر جھنڈے) کی پیروی کرتا ہے اس طرح سے جہاد اپنی فطرت میں شرمناک حد تک حملہ آور ہے اس کی حتمی منزل پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا ہے۔
صدیوں سے جہاد کے دو مختلف مطلب ہیں، ایک بہت زیادہ بنیاد پرست ہو جانا اور دوسرا کم بنیاد پرست ہونا پہلا مطلب رکھنے والے جو مسلمان مترجم ہیں انکا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس لیے جہاد ان کے لیے قانونی حدف ہے ( جو کہ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں الغاریوں ، مصریوں اور افغانیوں نے امریکیوں اور اسرائیلیوں کے طرح اس کو اختیار کیا۔ اس لیے اکثر وہ جہادی جارحیت کے مظلوم ہوتے ہیں) دوسرا مطلب عقائد سے تعلق رکھتا ہے جو جہاد کی قانونی تاریخ کو رد کرتا ہے جیسے کہ مسئلہ لڑائی کو اور مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ دنیا کی باتوں سے روحانی گہرائی کے حصول کے لیے دنیا کی باتوں سے ہاتھ کھینچو۔
علاقائی وسعت کے نقطہ نطر سے جہاد مسلمانوں کی زندگی کا ہمیشہ ایک مرکزی پہلو رہا ہے۔ اس طرح سے مسلمان نبی پاک حضرت محمد کی وفات کے بعد 632ء کے زمانے سے ہی عرب کے خطے پر حکومت کرنے لگے۔ اس طرح ایک صدی کے بعد مسلمانوں نے افغانستان سے سپین جانے کے لیے ایک علاقہ فتح کیا۔ نتیجاً جہاد کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اسے قبول کیا گیا مسلمان فاتح ان علاقوں میں تھے جیسے انڈیا سوڈان اور انطولیا اور بالکن۔
تاحال جہاد دہشت گردی کا اؤل ترین ذریعہ ہے، یہ خود سے جہادی تنظیموں کے ذریعے سے پوری دنیا میں کام کر رہی ہیں۔
- یہودیوں اور مسیحیوں کے خلاف بین القوامی اسلامی فرنٹ ۔
- اُسامہ بن لادن کا گروہ ۔
- لشکر جہاد: جو کہ انڈونیشیا میں دس ہزار مسیحیوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔
- حرکت اُلجہاد اسلامی: کشمیر میں تشدد کی ایک بڑی وجہ۔
- فلسطینی اسلامی جہاد: اسرائیل کے خلاف تمام گروپوں کے لیے ایک وحشی گروہ۔
- مصر اسلامی جہاد: 1981ء میں انورالعسادات کو قتل کیا تب سے بہت سارے اور بھی مارے گئے۔
- یمنی اسلامی جہاد:
لیکن حقیقت میں جہاد کی موجودہ شکل سوڈان میں بھیانک بن گئی ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں وہاں کی حکمران جماعتوں کا نعرہ " جہاد" فتح اور شہادت ہے۔ بیس سال کے عرصہ میں گورنمنٹ فال کی طرح ان کے ماتحت ہے۔ جہادی وہاں غیر مسلمانوں پر جسمانی حملہ کرتے اور وہ ان کے لوازمات کو لوٹتے ہیں۔ اور انکے مردوں کو قتل کرتے ہیں۔ جہادیوں نے دس ہزار عورتوں کو اور ان کے بچوں کو یرغمال بنایا اور انکو مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔ ان کو زبردستی پیش قدمی پر مجبور کیا اور انکو مارا۔ اور ا ن سے سخت محنت والا کام کروایا۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ رسمی طور پر گروہی زناکاری کی گئی۔ اعضائے تناسل عیارت کو مسخ کرتے تھے اور انکی زندگی کو جنسی تعلقات کا غلام بنا دیا۔ سوڈان کی ریاست دو ملین لوگوں کی موت کا ضامن ہے۔ اور اسکی برطرفی میں 4 ملین دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ ہمارے علاقے میں انسانیت پرستی کی ایک بہت بڑی مصیبت ہے ۔ جہادی بغض کا ریکارڈ جو مختلف ذرائع سے اس جدوجہد کے لیے راہنمائی لیتے ہیںیہ 14 ممالک میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایشیائی مصیبتوں کا بے اندازہ ذریعہ ہے۔ اکیڈمک اور اسلامی مفکر اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اسکی اجازت دیتے ہیں کہ صرف لڑائی ہی اسکا تحفظ ہے یا یہ کہ پوری طرح تشدد نہ ہو۔ امریکہ کے تین پروفیسر جو اسلامی تعلیم کے ماہر ہیں انہوں نے اس نقطہ کی واضح نشاندہی کی ہے جسے جہاد کہتے ہیں۔
- "ذاتی طور پر بُرائی کے خلاف جدوجہد اور معاشرے کی برائی کے لیے ظاہری طور پر اعلان ہے"۔
- ( ابراہیم اب۔ رابی ہارٹ فورڈ سیمنری)
- " علیحدگی مزاحمت یا عورتوں کے حقوق کے لیے کام" ( فرید اسحاق ابوبم سیمنری) اور
- بہتر طالب علم، بہتر صحت بزنس پارٹنر کے ہونے کے ناطے۔ ان سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے غصے کو قابل رکھنا۔ ( بوروس لاؤنس، ڈیوک یونیورسٹی)۔
جہاد کا سلجھاؤ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ زیادہ ناگوار نہیں ہے اپنے غصے ہر قابو پانے سے۔ لیکن یہ واقعات مُلک کے لیے اتنے آسان نہیں ہونگے اس ہولناک حقیقت سے دور بھاگنے کے لیے، موجودہ جہاد کو سنجیدہ طور پر روکنے کی کوشش بذات خود ایک نکتہ چینی اور اسکی دوبارہ داخلی ہے۔
دہشت گردی سے دور بھاگنے کا راستہ ، فتح ، مسلمانوں کی جھوٹی غلامی کو واضح طور پر ماننا جہاد کی تاریخ کا اصول ہے اسلامی مفکروں کی پیروی جہاد کے تشدد کو بیان کرتی ہے۔ اور حقیقت میں جہاد کی سختی کو ترک کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے کچھ ایسی تراکیب جو ان ذرائعوں سے موجودہ طور پر مخلصی نہیں دیتے۔ اور شدت اور جہاد اس طرح جاری رہیں جب تک اس کو اعلیٰ فوجوں سے مسئلہ نہ گیا۔ رمس فیلڈ ڈیفنس کا سیکرٹری مہربانی کر کے اس کو نوٹ کیجیے۔جب اعتدال پسند مسلمانوں کو شکست ہو گئی تو آخر میں مسلمان ان کی آواز کو، سچائی کو اور محنت کو نئے زمانے کے مطابق اسلام کو پہچانے گے۔