حمیدن علی ترکی 36 سالہ اور اسکی 35 سالہ بیوی سارہ کونیزین ماڈل مہاجر جوڑا دکھائی دیتا ہے۔ وہ 200 میں امریکہ پہنچے اور اپنے چار بچوں کے ساتھ اک اعلیٰ قسم کے ڈینور میں سبرب میں رہتا ہے، مسٹر الزک کلورائیڈو کی لسانیات یونیورسٹی سے گریجوایٹ تھا ۔ وہ عرب زبان کا سپیشلسٹ اور پروسٹدی کا عکس تھا اس نے امریکہ کے لسانی معاشرے کو پیسوں سے مدد کی۔ البشیر اشاعت کا اور ترجمے کا چیف ایگزیکٹو ہے۔ اسلام کے خاص عنوانوں کے متعلق ایک خاص قسم کا بک سٹور ہے۔
آخری ہفتے میں تاہم (ایف بی آئی )نے ایک غلام جوڑے پر الزام لگایا وہ ایک انڈونیشا کی خاتون تھی جو اپنی 20 سال کی ابتدا میں تھی ۔ چار سال کے لیے فردِ جرم کو پڑھنا جو انہوں نے کیے ، خوف کے ماحول میں اور جبراً زناکاری کے ذریعے دہشت کو یا دوسرے ذرائع کے ذریعے سے جرم کیے ہیں۔ غلام عورت نے کھانا پکایا صفائی کی بچوں کی دیکھ بھال کی اس نے دوسرے سخت کام بھی کیے۔ تھوڑے وقت کے لیے اجرت کے بغیر دہشت یہ ہے کہ اگر وہ تابعداری نہ کرتی تو وہ یقیناً سنجیدہ تکالیف سے دو چار ہوتی ۔
دو سعودی عربیوں نے مزدور کو قیمت دے کر مجبور کیا اور جنسی گالیوں کے ساتھ تشدد کیا اور غلامی کی دستاویزات اور غیر ملکیوں کو پناہ دی۔ اگر ان میں غلطی پائی جاتی ہے تو وہ اپنی باقی ماندہ زندگیوں کو قید میں گزاریں گے۔ حکومت بھی اس جوڑے البشیر کے ابک اکاونٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے کہ انکے کسان غلاموں کو 92700 ڈالر اجرت دے۔
یہ گریجوایٹ طالب علم کے لیے دھچکے کی بات ہے وہ مذہبی کتابوں کے بک سٹور کا مالک ہے لیکن یہ غیر معمولی نہیں ہے یہاں پر غلامی کی کچھ دوسری مثالیں ہیں جس میں یہودی شہنشاہ بھی شامل ہے جو سیاسی لوگ امریکہ میں رہتے ہیں۔
1982 میں میامی کے ایک جج نے ترکی کے شہزادے ترکی بن عبدالعزیز کے خلاف سرچ ورانٹ جاری کیا 24 منزل کے برآمدیے پر اس نے ایک مصری عورت پکڑ رکھا تھا۔ اسکا نام ندا لطیف مصطفی تھا، اس نے اس کو مرضی کے خلاف پکڑ رکھا تھا۔ مسٹر ترکی اور اسکے فرانسسی باڈی گارڈ نے اس کو بچانے اور اس جگہ کو تلاش کرنے سے اور سیاسی طریقے سے اس جگہ سے اسکو ہٹانے اور سزا کی پیش بندی سے کسی بھی طریقے سے قانونی طور پر ناخوشگوار حالات سے بچانے کی کوشش کی۔
1998 میں سعودی دفاع واشنگٹن کے ساتھ جُڑ گیا کولونل عبدالریحان البیان تھائی لینڈ کا ملازم تھا۔ مریم رون گیپرچ اسنے اسکے گھر سے کھڑکی سے باہر کود کر بچایا۔ اسنے بعد میں کہا وہ یہاں قید میں تھی۔ اسکو کھانا نہیں ملا تھا اور نہ ہی اسکے پاس پیسے تھے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسکا نام قابل قدر تھا۔ جسی وجہ سے وہ اس گھر کو چھوڑ نہ سکی یا اس نے اپنے نوکر کے بغیر ٹیلی فون کال کی۔
1991 میں شہزادہ سید بن عبدالعزیز ، عزیز السعوہ اور اسکی بیوی نوراں ہاسٹن میں رضت کارلٹن کی دوسری منزل پر رہتے تھے۔ اسکے کی دو نوکر یوسفین علی کوج اور فلپائن کے رہنے والے تھے۔ اور سریانی مارئین فرانڈو اسری لنکا کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے شہزادے کے خلاف کاروائی کی اور اس پر الزام لگایا کہ وہ شہزادے کے قبضے میں 5 مہینے سے اسکی مرضی کے خلاف تھے۔ یہ ایک غیر قانونی دھمکی تھی۔ اور جسمانی تشدد وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت کم تنخواہ لیتے تھے اور ان کے لیے میڈیکل علاج کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا، اور وہ جسمانی اور ذہنی مشکلات میں گزر رہے تھے۔
مارچ 2005 سعودی شہزادہ محمد بن ترکی السعود کی ایک بیوی حنا البدر 39 سال تھی اپنے گھر پر بوسٹن کے قریب گرفتار ہوئی اسنے غلام پر قیمت ادا کی تھی۔ گھریلو جبری غلا ریکارڈ میں ردو بدل ، ویزا فراڈ اور غیر ملکیوں کی پناہ گری کرتی تھی۔ مِس الجدر پر دو انڈونیشاہ کی عورتوں نے جو اس کے گھر میں کام کرتی تھی الزام لگایا اسنے ان کا اعتماد حاصل کیا کہ اگر وہ اسطرح مزدوروں کے ساتھ برتاؤ نہ کرے تو وہ بہت ہی شدید نقصان میں گزارے گی۔ اگر وہ مجرم ہیں مس الجدر نے 140 سال تک جیل میں گزارے اور 2.5 ڈالر جرمانہ ادا کیا۔
بہت سارے دوسرے ایسے واقعات اور مثالیں دینے کے لیے ہیں آئیر لینڈ سعوی شہزادے ماہا العدوری اور بنو السعود کو بچایا۔ مصنف جوئیل ماڈ برے 12 گھریلو عورتوں کے بارے میں بتاتا ہے جو سعودی افسر کے گھر میں پھنسی ہوئی تھیں۔ سعودی عرب میں دولت کی بہتات کا مسئلہ اتنا سنجیدہ کیوں ہے۔ چار وجوہات ذہن میں آتی ہیں غلامی کو 1962 میں سلطنت سے ختم کر دیا گیا۔ یہاں ترقی کی بہتات ہوئی۔ مذہب عہدے پر فائز سعودی لوگوں نے غلامی پر اختیارات جمانا شروع کر دئیے ۔ مثال کے طور پر شیخ صلاح الفوزان نے حال ہی میں اصرار کیا کہ " غلامی اسلام کا حصہ ہے" تو اسکے منسوخ کرنے والا کافر ہے۔
امریکہ کی ریاست کا ایک ڈیپارٹمنٹ سعودی گھریلو نوکروں پر جبر کے متعلق جانتا ہے اس سزا کو ختم کرنے کے لیے قانون جنگ کر رہا ہے۔ لیکن مسٹر ماؤ برے نے دلائل دیا کہ اسکے خلاف جنگ کو رد کر دیا گیا۔ آخر میں سعودی جانتے ہیں کہ وہ اس غلط رویے کے ساتھ ہی اس سے مسترد ہو سکتے ہیں۔ انکی ایمبنسی فنڈ مہیا کرتی ہے وکیلوں کے امدادی خطوط سیاسی سزا اک جوابی عمل امریکہ کی ایمبنسی والوں کو مشکلات کا سامنا اور اسنکی پریشانی کو دور کرنا۔ امریکی حکومت سعودیوں کے ساتھ کھلم کھلا برتاؤ کرتی ہے ڈینو، میامی، واشنگٹن، بوسٹن، اور آئرلینڈ میں غلامی حیران بات ہے جب واشنگٹن زیادہ ترقی یافتہ امریکیوں کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ سعودیوں کے رویے کو بڑھانے کی نمائندگی کرے گا۔
4 ستمبر 2006 میں موجودہ خبر : حنا الجدر سعودی شہزادے محمد بن ترکی السعود کی بیوی ہے اور اس نے دو عورتوں کو خریدا۔ دو غلاموں پر جبر کی غلطی محسوس کرتی ہے اور نقل مکانی کے چار نقصانات کو شمار کرتی ہے۔ ایک ویزا فراڈ کرتی ہے اور دوسری غیر ملکیوں کو پناہ دیتی ہے اور ان سے پیسے لیتی ہے۔
22 دسمبر 2006 موجودہ خبر: حنا الجدر نے شاید 140 سال جیل میں گزارے اور اس نے 2.5 ڈالر جرمانہ ادا کیا دو عورتوں کی غلامی کے لیے ہو سکتا ہے وہ اس غلطی کو محسوس کرتی ہو۔ لیکن اسکو دو سال کی جانچ کے لیے چھوڑا گیا چھ مہینے کے ساتھ اپنے گھر سے کنارہ کشی کی۔ اس نے 40000 ڈالر جرمانہ اور 206000 اپنے نوکروں کی رہائی کے لیے دیا اور وہ اپنی دوسری رہائش گاہ آئر لنگٹن پر بھی چلی گئی آخر میں وہ چھے مہینے کے لیے یہ جگہ چھوڑ کر سعودی عرب جانے کے لیے راضی ہو گئی۔ الجدر کے وکیل نے ہمیشہ جج کو قائل کیا ہے کہ اسکی یہ قید اسکے چھ بالائی بچوں کے لیے اور اسکے شوہر کے ناواجب ہو گی۔ شہزادہ محمد السعود جو ایک کار حادثے میں 1991 میں شدید زخمی ہو گیا۔ عدالت کے کاغذات کے مطابق الجدر سعودی عرب کے شاہی خاندان سے 100،000 ڈالر سالانہ تنخواہ حاصل کرتی تھی۔