نومبر 24 کی ڈیڈ لائن جیسے ہی آئی بڑی طاقتوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا: اس تاریخ پر انھوں نے مزید اور سات ماہ کے لیے عبوری معاہدئے کی توسیع کرنے کے لیے اس کو منظم کیا ۔ آیت اللہ کا ہجوم اور امریکی سنیٹر مدہوش تھے۔ ان ردعمل کو بہت دور تک دیکھتے ہوئے، موجودہ صورت حال کئی اندیشوں کو ہوا دیتی ہے:
حالیہ سرجری کے باوجود آیت اللہ خیمانی اچھے موڈ میں ہیں۔ کیا یہ امریکی مذاکرات کار ہیں جنھوں نے انھیں خوش کر دیا۔ |
- اگر کوئی ایک یہ فرض کرئے، جیسے کہ میں کرتا ہوں ، کہ الہامی – ذہن رکھنے والی ایرانی قیادت ہر ممکن کوشش کرئے گی کہ وہ بم حاصل کر سکے، تب اقتصادی پابندیاں اس سلسلے کو روک نہیں سکیں گی صرف اور صرف اس سلسلے کی رفتار کو آہستہ کر دیں گی۔ بہت زیادہ زور ڈالتے ہوئے ، پابندیوں پر مباحثہ غیر متعلقہ اور یہاں تک کہ یہ ایک مغالطہ ہے۔ مذاکرات کی پراسرار مالی اور سائنسی باریکیاں صرف مباحثے کو کہیں دفن کرنا چاہتیں ہیں۔ جوہری پروگرام کو ریورس کرنے کے لیے کچھ حکومتی طاقت کا استعمال کیا جائے گا کہ نہیں – جس کی وجہ سے واقعی ہی فرق پڑتا ہے ۔
- وہ کہتے ہیں کہ ، کیا 144 ویں کانگرس کی قانون سازی کو ویٹو – پروف اکثریت سے منطور ہونا چاہیے ، یہ یقینی طور پر براک اوبامہ کے خلاف ایک غیر معمولی دھچکا ہو گا اور شائد ان کی صدارت کے لیے کمی کا باعث بنئے گا۔ لیکن اس امریکی ملکی سیاست کے سگنل واقعے کا ایرانی پروگرام پر اثرانداز ہونے کا امکان نہیں ہے۔
- کچھ حکومتیں ( روسی، امریکی ) صیلاحیت رکھتی ہیں لیکن ایرانی سہولیات کر تباہ و برباد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ دوسرئے ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ( سعودیہ، کینیڈا ) لیکن ان کے پاس کوئی صیلاحیت نہیں ہے۔ یہ صرف پھر ایک کردار کو چھوڑ دیتے ہیں، جن کے پاس اس طرح کی صیلاحیت بھی ہے اور اس کو تباہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے : وہ ہے اسرائیل۔ یہ اس کو ایک درمیانی مقام دیتا ہے ، کہ آیا یہ 64،000 ڈالر کے مطابق کام کرئے گا۔ یہ ہی وہ چیز ہے جو میرئے ذہن پر مسلط ہے، میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں ، کیا دوسروں کو بھی اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔
- اسرائیلی معمہ حقیقی ظاہر ہوتا ہے: دوسری طرف یہ ہی وہ ریاست ہے جو کہ جوہری پروگرام کو شکست دئے سکتی ہے ( اور انھوں نے ایسا دو دفعہ کیا، 1981 ء اور 2007 ء میں ) ؛ دوسری طرف لاجیسٹیکل چیلنج اور اول درجے کی بلند ترین حد بندیوں نے اس راؤنڈ کو بہت مشکل بنا دیا ہے ۔
- یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا ، اسرائیل کے 8 ملین افراد ایک غیر معمولی بین الاقوامی کردار اداء کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ غیر ملکی نمائندوں کی سب سے زیادہ فی کس تعداد پر مشتمل ہیں: بے شک ان کا کلاسیکل میوزک سچائی پر مبنی ہے، مذہبی جذبات ، ہائی ٹیک کامیابیاں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں یا وار فئیر یہودی ریاست کو عالمی سطح پر اس کی طاقت سے زیادہ دبایا گیا ہے۔ (26 نومبر، 2014)
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔