تاہم تعلقات کے لحاظ سے انتہائی اہم بیرونی دنیا کے ساتھ ایرانی تعلقات، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات ، اور کانگرس کے تعلقات براک اربامہ کے ساتھ، دشوار، متضاد اور غیر معین جوائنٹ جامع پلان آف ایکشن اس بات سے بہت کم مطابقت رکھتا ہے کہ آیا ملاء جوہری ہتھیاروں کی ملکیت اختیار کر سکتا ہے یا نہیں۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں:
اگر کوئی ایک یہ فرض کرئے ، جیسے کہ کسی ایک کو کرنا چاہیے ، کہ ایرانی قیادت کو اسلحہ سازی کا کارخانہ تعمیر کرنے اور انھیں فراہم کرنے کے ذرایعوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے با نسبت اقتصادی ایشو کی ( پابندیوں،
کے مذاکرات کو آگے بڑھاتی ہے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک اسلحہ سازی P5+1 بائیکاٹ، عارضی تجارتی پابندیاں ) جو
کے کارخانہ کی تعمیر کی رفتار، لاگت ، اور اس پر ہونے والی مشقت پر اثرانداز ہوتی ہے، لیکن اس کے حتمی احساس میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتی ۔
ایرانی پروگرام کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے ، اس کی جوہری تنصیات پر فضائیہ حملہ کرنے کی جرآت کی جائے۔ تاہم یہ امکان، اب دو سال پہلے کے برعکس غیر اہم سمجھا جاتا ہے، جس کے بارئے میں اب مزید بحث نہيں کی جاتی۔
بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ جو کہ صرف ایک دربارہ نئے منتخیب ہونے والا وزیراعظم ہے، اسرائیل کے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو کہ باظاہر طور پراہم اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ جس کی توجہ مذاکرات کرنے کی وجہ سے ہٹا دی گئی ہے۔ تاہم ہم بامشکل ہی اس کے بارئے میں سوچ سکتے ہیں- حالانکہ اس سے پہلے در بار اسرائیل ڈیفنس فورسز نے جوہری تنصیات پر حملہ کیا ہے ( 1981 ء میں عراق پر، 2007 ہ میں شام پر ) ، اور دونوں بار پوری دنیا سے اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔
پر موجود شامی ایٹمی ری ایکٹر اسرائیلی ائیر فورس حملے سے پہلے اور بعد میں۔Deir al-Zour ستمبر 2007 ء میں |
کیا اسرائیل ایران پر بم گرائے گا یا نہیں؟ میں یہ جواب دینے سے قاصر ہوں؛ لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ، یہ اور لوازن معاہدئے کی جزئیات نہیں ہیں ، یہ ہی اہم مسئلہ ہے۔